آسیہ بی بی کا مقدمۂ توہین رسالت

مجرمانہ مقدمہ
(آسیہ بی بی سے رجوع مکرر)

آسیہ بی بی پاکستان کی ایک مسیحی خاتون جن پر جون 2009ء میں ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں نے الزام لگایا تھا کہ انھوں نے پیغمبر اسلام کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے ہیں۔[1] 31 اکتوبر 2018ء کو عدم ثبوت کی وجہ سے عدالت عظمیٰ پاکستان نے آسیہ بی بی کو رہا کر دیا۔[1]

عدالتعدالت عظمیٰ پاکستان
تاریخ فیصلہاکتوبر 2018
نقولفیصلہ
کیس ہسٹری
مدعیشیخوپورہ ضلعی عدالت
مدعا علیہعدالت عالیہ لاہور
(کالعدم 16 اکتوبر 2014ء)
نتیجہعدالت عظمیٰ پاکستان
(نے سزائے موت کو 2015ء میں روک دیا)۔
2018ء کو بری کر دیا
آرا مقدمہ
منصفمیاں ثاقب نثار
اتفاق رائےآصف سعید خان کھوسہ
کلیدی الفاظ

علاقہ

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں اٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔

مبینہ توہین رسالت

2009ء میں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں، آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف 'تین توہین آمیز' کلمات کہے تھے۔

استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔

گرفتاری

الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔

مقدمہ

جون 2009ء میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف 'تین توہین آمیز' کلمات کہے تھے۔

تاہم ملزمہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔

2010ء میں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014ء میں عدالت نے سزا کی توثیق کر دی۔

آسیہ بی بی نے جنوری 2015ء میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت جولائی 2015ء میں شروع کی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا۔

وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔

بریت

31 اکتوبر 2018ء میں سپریم کورٹ نے بری کرنے کا حکم جاری کیا ،

کینیڈا روانگی

توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد برسوں تک جیل میں رہنے والی پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی سپریم کورٹ کی طرف سے اپنی بریت کے کئی ماہ بعد 8 مئی 2019ء کو کینیڈا روانہ ہو گئی، ان کی بیٹیاں پہلے ہی کینیڈا میں موجود تھیں،۔

فرانس کی شہریت اور کتاب کی اشاعت

25 فروری 2020ء کو آسیہ بی بی اپنی کتاب کی تشہیر کے سلسلے میں فرانس گئیں۔ جو گذشتہ ماہ شائع ہوئی تھی۔ فرانسیسی زبان میں چھپنے والی کتاب کا انگریزی عنوان 'Finally free' ہے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ ستمبر میں شائع کیا گیا، این ازبیلا ٹولیٹ کتاب کی مصنفہ ہیں۔

29 فروری 2020ء کو آسیہ بی بی کو فرانس کی اعزازی شہریت مل گئی۔۔ آسیہ بی بی کی پیرس کے الیزے پیرس میں فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں سے ملاقات ہوئی۔۔

انھیں فرانس کی اعزازی شہریت دی گئی۔اعزازی شہریت کے لیے آسیہ بی بی کو پيرس کی ميئر اينے ہڈالگو نے سرٹيفيکيٹ ديا،

حوالہ جات

بیرونی روابط