آغا حشر کاشمیری

اردو زبان کے ادیب اور شاعر (1935-1879)

آغا حشر کاشمیری (پیدائش: 4 اپریل 1879ء – وفات: 28 اپریل 1935ء) اردو زبان کے شاعر، خطیب، مناظر اور فلمساز ہونے کے علاوہ ڈراما نگاری کے میدان میں اردو زبان کے شیکسپئیر کہلاتے ہیں۔

آغا حشر کاشمیری
معلومات شخصیت
پیدائش 4 اپریل 1879ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 اپریل 1935ء (56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میانی صاحب قبرستان  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف،  شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آغا محمد حشر ابن آغا غنی شاہ بنارس میں 1879ء میں پیدا ہوئے تعلیم و تربیت بنارس میں ہوئی۔ آپ کے والد مذہبی معاملات میں قدامت پسند تھے۔ اس لیے آغا حشر ابتدا میں انگریزی تعلیم سے محروم رہے۔ دینیات کی تعلیم مولوی عبد الصمد سے حاصل کی اور سولہ پارے حفظ کیے۔
آغا حشر موزوں طبیعت رکھتے تھے۔ چھوٹی عمر میں شعر کہنے لگے اور فائز بنارسی کو کلام دکھانے لگے۔ مہدی حسن احسن لکھنوی مشہور ڈراما نویس سے جھڑپ ہوجانے پر ڈراما نگاری کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ 1897ء میں آپ کا پہلا ڈراما (آفتاب محبت) کے نام سے شائع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ آغا حشر نے انیس سال کی عمر میں ڈراما نگاری میں نام پیدا کر لیا تھا تاہم وہ آگے چل کر اردو زبان کے شیکسپئر کہلائے۔ آغا حشر نے انگریزی زبان سیکھی اور شیکسپئر اور دیگر غیر ملکی ڈراما نویسیوں کے ڈرامے پڑھے اور بعض کا اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ نے نظمیں بھی لکھیں اور غزلیں بھی لکھیں۔ 1935ء میں لاہور میں فوت ہوئے اور یہیں دفن ہوئے۔
آغا حشر نے بے شمار ڈرامے لکھے جن میں خواب ہستی، رستم و سہراب، مرید اشک، اسیر حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا، سفید خون بہت مشہور ہوئے۔

سوانح ترمیم

نام و نسب ترمیم

آغا حشر کا پیدائشی نام محمد خلیل شاہ تھا ۔ البتہ اکثر کتب ہائے ڈرامانگاری میں اُن کا نام آغا محمد شاہ حشرؔ لکھا گیا ہے جبکہ اُن کامعروف نام آغا حشرؔکاشمیری ہے۔جاوید نہال نے آغا حشر کے نام کی بابت لکھا ہے کہ: ’’ اُن کا تاریخی نام محمد خلیل شاہ رکھا گیا جو آگے چل کر محمد شاہ رہ گیا اور آخر میں وہ صرف آغا حشر کے نام سے مشہور ہوئے‘‘۔[1][2]

مقامِ پیدائش ترمیم

آغا حشر کے نام کی نسبت سے جیسے اِختلاف موجود ہے، ویسے ہی اُن کی جائے پیدائش سے متعلق بھی اِختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ مقامِ پیدائش بنارس کی بتاتے ہیں اور بعض امرتسر کی۔ اِس سلسلے میں مختلف بیانات سامنے آتے ہیں، جیسے کہ ڈاکٹر عبد العلیم نامی کہتے ہیں کہ: ’’ آغا محمد شاہ ناریل بازار، گوبند پور کلاں، بنارس میں پیدا ہوئے‘‘[3]۔تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند میں درج ہے کہ: ’’ آغا محمد شاہ جو حشرؔ تخلص کرتے ہیں، بنارس میں پیدا ہوئے‘‘[4]۔

پیدائش ترمیم

آغا حشر کی پیدائش بروز جمعرات 4 اپریل 1879ء کو ہوئی۔کلیاتِ آغا حشرؔ کے مرتبین کی رائے میں آغا حشر کی پیدائش 3 اپریل اور 4 اپریل 1879ء کی درمیانی شب میں ہوئی[5]۔ اُن کے والد آغا محمد غنی شاہ کشمیری پہلے سرینگر میں شال دوشالہ کی تجارت کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ ایک عرصہ تک وہ بسلسلۂ تجارت وہیں مقیم رہے۔ بعد ازاں انھوں نے مستقل سکونت اِختیار کرلی جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہاں فنکاری کے قدردان نسبتاً زیادہ تھے اور اُن کا شال دوشالہ کا کاروبار بخوبی چل سکتا تھا۔[6]

نسب ترمیم

آغا حشر نسبی اعتبار سے کشمیری شیخ تھے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ وہ سید تھے۔ اِس بابت اُن کے بھانجے عبد القدوس نیرنگ لکھتے ہیں کہ: ’’ کچھ لوگوں نے آغا حشر کو سید لکھا ہے، جو غلط ہے۔ وہ کشمیری شیخ تھے۔ اُن کی دادی غنی شاہ کی والدہ البتہ سیدانی تھیں۔ آغا حشر کے مشہور ڈراما ’’سیتا ون واس‘‘ کے ایک اشتہار میں انھیں قوم مغل سے لکھا گیا ہے، جو صحیح نہیں ہے اور کسی طرح تصحیح سے رہ گیا‘‘۔[6]

آغا حشر کا اردو ادب میں مقام  ترمیم

ڈراما نویسی ترمیم

آغا حشر کا اردو ادب میں مقام اُن کی ڈراما نویسی سے ہے۔ آغا حشر نے کوئی 32، 33 سال ڈرامے لکھے۔ اِس مدت میں اُن کی مقبولیت برابر بڑھتی رہی۔ اُن کی ڈراما نگاری کی اِس مدت کو چار دوروں (اَدوار) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر اگلے دور میں اُن کی شہرت اور قبولِ عام کا آفتاب برابر زیادہ چمکا اور زیادہ بلند ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی اِتفاقی بات نہیں ہو سکتی۔ آغا حشر میں ضرور کوئی نہ کوئی ایسی خصوصیت تھی جس نے ہر لمحہ اُن کی شہرت کو پہلے سے زیادہ چمکایا۔ آخر وہ خصوصیت کیا تھی؟۔ اِس سوال کا جواب خود اُن کے ڈرامے دیتے ہیں۔ اِن ڈراموں کو دیکھ کر واضح طور پر دو باتیں نظر کے سامنے آتی ہیں: پہلی تو یہ ہے کہ آغا حشر نے اپنی ڈراما نگاری کے ہر دور میں زمانے کو وہ چیز دِی جو اُس نے اُن سے طلب کی۔ حشر نے اپنے فن کو زمانے کی ضرورت کے سانچے میں بھی ڈھالا ہے اور اپنی جرأت اور اعتماد سے فن کو برابر ایسی شکل بھی دی ہے کہ وہ زمانے کے مذاق کو بہتر بناتا رہے۔ اُن کی ڈراما نگاری کا ہر دور انھیں دو بڑی خصوصیات کا حامل ہے، اِن میں سے ہر دور ہم آہنگی، جرأت، اعتماد اور جِدـت پسندی کی ایک نئی منزل ہے۔ آخری منزل کی طرف جرأت اور یقین کا ایک اور قدم ہے۔[7]

ڈراما نویسی کے اَدوار ترمیم

وقار عظیم نے آغا حشر کی ڈراما نویسی کو عموماً تین اَدوار میں تقسیم کیا ہے مگر بغور جائزہ لیا جائے تو آغا حشر کی ڈراما نویسی کو چار حصوں میں منقسم کیا جانا چاہیے۔۔ خود آغا صاحب نے پوری تخلیقی زندگی کے یہ حصے کیے ہیں: پہلا دور 1901ء سے 1905ء تک، اِس دور میں مریدِ شک، مارِ آستین، میٹھی چھری اور اسیر حرص نامی ڈرامے لکھے گئے۔دوسرا دور 1906ء سے 1909ء تک: اِس دور میں شہید ناز، خوبصورت بلا، سفید خون اور صید ہوس نامی ڈرامے لکھے گئے۔تیسرا دور 1910ء سے 1916ء تک: اِس دور میں سلور کنگ، خوابِ ہستی، یہودی کی لڑکی، سور داس، بن دیوی اور پہلا نقش نامی ڈرامے لکھے گئے۔چوتھا دور 1917ء سے 1924ء تک: یہ زمانہ کلکتہ کے قیام کا زمانہ ہے۔ اِس زمانہ میں آغا صاحب نے زیادہ تر ہندی کے ڈرامے لکھے۔ مدھر مُرلی، بھاگیرتھ گنگا، بھارت رمنی (قدیم بن دیوی)، ہندوستان (جس کے تین حصے ہیں: شرون کمار، اکبر اور آنچ)، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، پہلا پیار اور بھیشم پتاما اِس دور کی یادگار ہیں۔آخری دور میں آغا حشر نے اِصلاحی ڈرامے لکھے۔ 1928ء میں سیتا بن باس، 1929ء میں رستم و سہراب، 1930ء سے 1932ء تک دھرمی بالک، بھارتی بالک اور دِل کی پیاس نامی ڈرامے تصنیف کیے[8]۔

ڈراما ترمیم

ان کی مقبولیت کی وجوہات کو چراغ حسن حسرت نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

’ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیئٹر ہی تھیئٹر تھا۔ اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراماٹسٹ موجود تھے، احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب ناٹک کی لنکا کے باون گزے تھے، لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کیا تھی؟ بچارے ڈراماٹسٹ تھیئٹر کے منشی کہلاتے تھے۔‘

زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ آغا حشر کو ہندوستان کے شیکسپیئر کا خطاب دے دیا گیا۔ انھیں خود بھی یہ لقب پسند تھا، چنانچہ انھوں نے جب 1912 میں اپنی ڈراما کمپنی کا آغاز کیا تو اس کا نام انڈین شیکسپیئر تھیئٹریکل کمپنی رکھا۔

شیکسپیئر کے تراجم کے علاوہ حشر نے جو دوسرے ڈرامے لکھے ان میں ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔

مزید دیکھیے ترمیم

کتابیات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. مجلہ قند: ڈراما نمبر، صفحہ 263۔
  2. آغا حشر کاشمیری، حیات اور کارنامے: صفحہ 7۔
  3. اُردو تھیٹر، حصہ دؤم، صفحہ 232۔
  4. تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند: جلد 10، صفحہ 209۔
  5. کلیات آغا حشر کاشمیری: جلد 1، صفحہ 8۔
  6. ^ ا ب آغا حشر، شخصیت اور فن، صفحہ21۔
  7. آغا حشر اور اُن کے ڈرامے، صفحہ 85-86۔
  8. آغا حشر اور اُن کے ڈرامے، صفحہ 86۔