بڑے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق خدا نے اسرافیل کو صور پھونکنے پر مامور کیا ہے۔ قرب قیامت کے وقت یہ خدا کے حکم سے صور پھونکیں گے تو تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ دوبارہ پھونکیں گے تو مرے ہوئے لوگ زندہ ہو کر میدان حشر کی طرف دوڑیں گے۔ جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ قرآن مجید میں نفخ صور کا ذکر ہے۔ البتہ اسرافیل کا نام کہیں نہیں آیا۔ طبری ،کسائی اور غزالی وغیرہ نے قیامت کے ضمن میں اسرافیل کے تفصیلی حالات لکھے ہیں۔ یہودیوں کی روایات میں بھی ایک فرشتے کا نام کہیں سرافیم کہیں سرافیل اور کہیں سرافین بتایا گیا ہے۔ لیکن یہودی نفخ صور کے قائل نہیں۔ نفخ صور کا عقیدہ مسلمانوں کے علاوہ مسیحیوں میں پایا جاتا ہے۔یہ خیال درست نہیں کہ یہود صور کے قائل نہیں بلکہ یہ عقیدہ سناتن دھرم میں بھی پایا جاتا ہے جس کو شنکھ اور شوفار کہا جاتا ہے۔ شنکھ بہت بڑی سیپ کو کہتے ہیں۔ جبکہ یہودیوں کی بھیڑ کی سینگھ جس کو ہیبرو میں شوفار کہا جاتا ہے رائج ہے۔ دراصل یاددہانی اور علامت ہے جب آخری شنکھ بجے گا۔ یعنی روز قیامت کا شنکھ یا شوفار۔ جس کو سن کر ناؤ اور نیور والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور ایک عزم مصمم پیدا ہوجاتا ہے۔  اس لیے یہ شنکھ اور شوفار بجایا جاتا ہے۔

اسرافیل کا خطاطی نام

سور اسرافیل کی بابت تالمود میں صراحت سے لکھا ہوا ہے جس کو شوفار سراف ایل  کہاجاتا ہے  ۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔