سورہ الملک

قرآن مجید کی 67 ویں سورت
(الملك سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 67 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 30 آیات ہیں۔

الملک
دور نزولمکی
اعداد و شمار
عددِ سورت67
عددِ پارہ29
تعداد آیات30

نام

پہلے فقرے تبارک الذی بیدہ الملک کے لفظ اَلمُلک کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

کسی معتبر روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس زمانے میں نازل ہوئی ہے،مگر مضامین اور اندازِ بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔

موضوع اور مضمون

اس میں ایک طرف مختصر طریقے سے اسلام کی تعلیمات کا تعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف بڑے مؤثر انداز میں ان لوگوں کو چونکایا گیا ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ مکۂ معظمہ کی ابتدائی سورتوں کی خصوصیت ہے کہ وہ اسلام کی ساری تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقصدِ بعثت کو پیش کرتی ہیں، مگر تفصیل کے ساتھ نہیں بلکہ اختصار کے ساتھ، تاکہ وہ بتدریج لوگوں کے ذہن نشین ہونی چلی جائیں۔ اس کے ساتھ ان میں زیادہ زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی غفلت دور کی جائے، ان کو سوچنے پر مجبور کیا جائے اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا جائے۔

پہلی پانچ آیتوں میں انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا خلل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں بھی اللہ تعالٰی ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیارات بھی بالکلیہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی قدرت لامحدود ہے۔ اس کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں وہ بے مقصد پیدا نہیں کر دیا گیا ہے بلکہ یہاں اسے امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس امتحان میں وہ اپنے حسن عمل ہی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔

آیت 6 سے 11 تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں جو آحرت میں نکلنے والے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے انبیا کو بھیج کر تمھیں اس دنیا میں ان نتائج سے خبردار کر دیا ہے۔ اب اگر یہاں تم انبیا کی بات مان کر اپنا رویہ درست نہ کرو گے تو آخرت میں تمھیں خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اس کے مستحق ہو۔

آیت 12 سے 14 تک کہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ وہ تمھاری ہر کھلی اور چھپی بات، حتٰی کہ تمھارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے۔ لہٰذا اخلاق کی صحیح بنیاد یہ ہے کہ انسان اس اَن دیکھے خدا کی پرس سے ڈر کر برائی سے بچے، خواہ دنیا میں کوئی طاقت اس پر گرفت کرنے والی ہو یا نہ ہو اور دنیا میں اس سے کسی نقصان کا امکان ہو یا نہ ہو یہ طرز عمل جو لوگ اختیار کریں گے وہی آخرت میں بخشش اور اجر عظیم کے مستحق ہوں گے۔

آیت 15 سے 23 تک اُن پیش پا اُفتادہ حقیقتوں کی طرف، جنہیں انسان دنیا کے معمولات سمجھ کر قابل توجہ شمار نہیں کرتا، پے در پے اشارے کر کے ان پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو۔ خدا ہی نے اسے تمھارے لیے تابع کر رکھا ہے، ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوند خاک ہو جاؤ یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمھیں تہس نہس کر کے رکھ دے۔ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو دیکھو۔ خدا ہی تو ہے جو انھیں فضا میں تھامے ہوئے ہے۔ اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو۔ خدا اگر تمھیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمھیں اُس سے بچا سکتا ہے اور خدا اگر تمھارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انھیں کھول سکتا ہے؟ یہ ساری چیزیں تمھیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ مگر انھیں تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں سے کام نہیں لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے خدا نے تمھیں دیے ہیں۔ اسی وجہ سے راہ راست تمھیں نظر نہیں آتی۔

آیت 24 سے 27 تک بتایا گیا ہے کہ آخر کار تمھیں لازماً اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔ نبی کا کام یہ نہیں ہے کہ تمھیں اس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے۔ اس کا کام بس یہ ہے کہ تمھیں اس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کر دے۔ تم آج اس کی بات نہیں مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وہ وقت لا کر تمھیں دکھا دیا جائے۔ مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں سے اسے دیکھ لو گے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں گے۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلد لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے۔

آیت 28 اور 29 میں کفار مکہ کی ان باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف کرتے تھے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کوستے تھے اور آپ کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہلاکت کی دعائیں مانگتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ تمھیں راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں یا اللہ ان پر رحم کرے، اس سے آخر تمھاری قسمت کیسے بدل جائے گی؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمھیں بچائے گا؟ جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے اس پر توکل کیا ہے، انھیں تم گمراہ سمجھ رہے ہو۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بات کھل جائے گی کہ حقیقت میں گمراہ کون تھا۔

آخر میں لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھ دیا گیا ہے اور اسی پر سوچنے کے لیے انھیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں، جہاں تمھاری زندگی کا سارا انحصار اس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے، وہاں اگر یہ پانی زمین میں اتر کر غائب ہو جائے تو خدا کے سوا کون تمھیں یہ آب حیات لا کر دے سکتا ہے؟