فرمانروائے افغانستان اپنے والد امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد 1919ء میں کابل میں تخت پر بیٹھے۔ چند ماہ بعد افغانستان کی تیسری جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں برطانوی افواج تین محاذوں مین مغلوب ہوئیں مگر معاہدہ راولپنڈی کی رو سے برطانیہ نے افغانستان کی مکمل خود مختاری کی قبول کی اور دونوں حکومتوں میں مساوی درجے پر تعلقات قائم ہو گئے۔ امان اللہ خان روشن خیال حکمران تھے۔ انھوں نے افغانستان میں مغربی طرز کا نظم و نسق قائم کرنے کی کوشش کی۔ 1928ء میں ملکہ ثریا کے ہمراہ یورپ کا سفر کیا اور سوویت روس بھی گئے۔ وہاں کے سماجی انقلاب سے بہت متاثر ہوئے اور افغانستان میں سماجی اصلاحات کیں۔ اس پر افغانستان کے رجعت پسند حلقے ان کے خلاف ہو گئے۔ ادھر انگریز بھی اُن سے خفا تھے کیونکہ ان کا رجحان روس کی طرف تھا۔ انگریزوں نے بچہ سقا کو بغاوت پر آمادہ کیا اوراس کی مدد کی۔ 1929ء میں بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ امان اللہ خان یورپ چلے گئے اور روم میں سکونت اختیار کی۔ بعد میں سویٹزرلینڈ چلے گئے جہاں 25 اپریل 1960ء میں وفات پائی۔

امان اللہ خان
King Amanullah I
غازي امان الله خان
شاہ مملکت خداداد افغانستان[1]
خود مختار امیر افغانستان
28 جنوری 1919 – 9 جون 1926
پیشروامیر نصراللہ خان
جانشینبذات خود (بطور شاہ)
شاہ افغانستان
9 جون 1926 – 14 جنوری 1929
پیشروبذات خود (بطور خود مختار امیر)
جانشینعنايت اللہ خان
شریک حیاتثریا طرزی
نسل
دیکھیے
  • شہزادی امینہ شاہ
    شہزادی عبیدہ بی بی
    شہزادی ملیہا
    ولی عہد شہزادہ رحمت اللہ
    شہزادہ سیف اللہ
    شہزادہ حمیث اللہ
    شہزادی عدیلہ
    شہزادہ احسان اللہ
    شہزادی ہند
    شہزادی ناجیہ
خاندانبارکزئی خاندان
والدامیر حبیب اللہ خان
والدہسرور سلطانہ بیگم
پیدائش1 جون 1892(1892-06-01)

پغمان، امارت افغانستان
وفات25 اپریل 1960(1960-40-25) (عمر  67 سال)

زیورخ، سوئٹزرلینڈ
تدفینجلال آباد، افغانستان

حالاتِ زندگی ترمیم

مارچ 1919ء میں امیر امان اللہ خان نے اپنے والد امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد افغانستان کی بادشاہت سنبھالی تو صورت حال یہ تھی کہ اگرچہ افغانستان ایک آزاد ملک کہلاتا تھا مگر امیر حبیب اللہ خان اور ان کے والد امیر عبد الرحمٰن کے برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدوں کی بدولت پالیسیوں پر انگریزوں کا ریموٹ کنٹرول قائم ہو چکا تھا۔ ان معاملات کے تحت نہ صرف چترال، وزیرستان، خیبر، چاغی، چمن، پشین، پاراچنار اور کرم کے علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیے گئے تھے بلکہ 1905ء میں کیے جانے والے ایک معاہدہ کی رو سے امیر حبیب اللہ خان نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پونڈ کے عوض افغانستان کے خارجہ معاملات کا کنٹرول بھی انگریزوں کی تحویل میں دے رکھا تھا۔

امیر امان اللہ خان نے بادشاہت سنبھالتے ہی افغانستان کی مکمل آزادی کا اعلان کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس میں افغان قوم نے اپنے حکمران کا بھرپور ساتھ دیا اور بالآخر مختلف جھڑپوں اور محاذ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے 8 اگست 1919ء کو افغانستان کی آزادی کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد امیر امان اللہ خان نے ملک کے نظام کی اصلاح اور دستوری ماحول قائم کرنے کی طرف توجہ دی اور متعدد اصلاحات نافذ کیں جو افغان قوم کو ہضم نہ ہوسکیں اور جنوری 1929ء میں ایک تاجک سردار بچہ سقا نے، جسے پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے تاجک ڈاکو لکھا ہے، کابل پر قبضہ کر کے امان اللہ خان کو اقتدار سے محروم کر دیا اور وہ اقتدار کے دوبارہ حصول کی ایک کوشش میں ناکامی کے بعد اٹلی چلے گئے۔

امیر امان اللہ خان جس وقت افغانستان میں یہ اصلاحات نافذ کر رہے تھے اس وقت ایک ہندوستانی دانشور عزیز ہندی بھی وہاں موجود تھے جو 1918ء میں ہجرت کر کے کابل گئے تھے۔ وہ وہاں دس سال قیام کے بعد وطن واپس آئے، انھوں نے امان اللہ خان کے دور حکومت اور اصلاحات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور ان مشاہدات پر مشتمل ساڑھے چار سو صفحات کی ایک کتاب ’’زوال غازی امان اللہ خان‘‘ کے نام سے لکھ کر انھیں تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ عزیز ہندی وطن واپسی کے بعد بغاوت کے الزام میں گرفتار ہو گئے تھے اور انھوں نے یہ کتاب سنٹرل جیل ملتان میں لکھی جو 1933ء میں ان کی رہائی کے بعد ثنائی برقی پریس امرتسر سے شائع ہوئی ۔

امیر امان اللہ خان افغانستان میں سیاسی اور ثقافتی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے جدید کلچر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ یورپی ثقافت کو افغانستان میں طاقت کے زور پر رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عزیز ہندی کے بقول امان اللہ خان نے سردار محمود خان یاور کے ذمہ لگا رکھا تھا کہ وہ ان کے واپس آنے تک افغانستان میں رائے عامہ کو ثقافتی انقلاب کے لیے ہموار کرنے کی کوشش کریں اور خاص طور پر آزاد خیالی اور برہنہ روئی کا پرچار کریں۔ برہنہ روئی کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کے لیے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ چہرے کے پردے کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے۔ مگر امیر امان اللہ خان کی وطن واپسی پر جب محمود خان یاور نے انھیں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنا چاہی تو انھوں نے کہا کہ ’’بس بس محمود جان رہنے دو یہ باتیں اس طرح حاصل نہیں ہو سکتیں، مصطفیٰ کمال نے مجھے کہا ہے کہ انھیں محض سنگین کی نوک سے رائج کیا جا سکتا ہے اور میں اب انھیں بہ نوک سنگین رائج کر کے رہوں گا۔‘‘

عزیز ہندی نے امیر امان اللہ خان کے ترکی کے دورہ اور جمہوریہ ترکیہ کے بانی و صدر مصطفیٰ کمال اتاترک کے ساتھ ان کی ملاقات و گفتگو کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہ مکالمہ بھی اپنے الفاظ میں نقل کر دیا ہے جو ان کے بقول اس ملاقات میں دونوں لیڈروں کے درمیان ہوا تھا۔

مصطفیٰ کمال اتاترک نے امیر امان اللہ خان سے کہا کہ وہ جس طرح کی اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ انھیں عوام میں حد درجہ کی مقبولیت حاصل ہو تاکہ کوئی طبقہ اصلاحات کی راہ میں مزاحمت کی جرأت نہ کر سکے۔ امان اللہ خان نے اس کے جواب میں کہا کہ ملانے (علما) اگرچہ طاقتور گروہ ہیں مگر اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ مزاحمت کر سکیں۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر اصلاحات کے نتیجہ میں بغاوت ہو گئی تو اسے کچلنے کے لیے فوج کا مکمل طور پر وفادار ہونا ضروری ہے۔امان اللہ خان نے جواب دیا کہ میری فوج پوری طرح وفادار ہے اور ہر طرح کی بغاوت کو کچلنے کے لیے میرے ساتھ ہوگی۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر کسی جگہ بغاوت ہو گئی تو محصولات کی وصولی میں رکاوٹ ہوگی، جنگ کی وجہ سے راستے مخدوش ہو جائیں گے جس سے تجارت کمزور پڑ جائے گی اور آمدنی کم ہو جائے گی، اس لیے مالی حالات کا مستحکم ہونا ضروری ہے تاکہ صورت حال کنٹرول میں رہے۔ امان اللہ خان نے کہا کہ ان کی مالی حالت پوری طرح مستحکم ہے اور بوقت ضرورت ان کے دوست ان کی مدد کریں گے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اندرونی شورش اور بغاوت کی صورت میں بین الاقوامی حمایت اور تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ امان اللہ خان نے جواب دیا کہ انگریزوں اور روس دونوں کے ساتھ ان کے معاملات موجود ہیں جو اپنے معاملات کی پاسداری کریں گے اور ضرورت پڑنے پر مالی مدد بھی مل سکتی ہے۔ اس طرح کی تفصیلی گفتگو کے بعد مصطفیٰ کمال نے امان اللہ خان سے جو آخری بات کی اسے عزیز ہندی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ترکیہ میں اصلاحات کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ ہم نے بہ نوک سنگین ان کو رائج کیا ہے۔ کسی ملک کے باشندے اپنے پرانے عقائد و خیالات اور رسم و رواج کی پابندیوں کو از خود خیرباد نہیں کہا کرتے تا آنکہ حکومت وقت ان کے بر علیہ جبر و قوت کو استعمال نہ کرے۔ مصطفیٰ کمال سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد امان اللہ خان واپس افغانستان پہنچے تو ان کی ذہنی حالت یہ ہو چکی تھی کہ وزارت خارجہ کے ہال میں علما کرام کا ایک وفد ان کی پزیرائی اور ملاقات کے لیے آیا مگر امیر امان اللہ خان نے سابقہ دستور اور اسلامی طریقہ کے مطابق ان سے سلام اور مصافحہ کرنے کی بجائے ہیٹ اتار کر یورپی طریقہ سے ان کے سلام کا جواب دیا اور ایک ہاتھ سے ہر ایک کے ساتھ خشک مصافحہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اسی مجلس میں ایک بڑے عالم ’’ملا صاحب چکنور‘‘ کے ہاتھ میں موٹے دانوں کی تسبیح دیکھ کر امان اللہ خان نے کہا کہ ’’یہ کیا اونٹ کی لیڈنیوں سے کھیل رہے ہو؟‘‘ کسی مصاحب نے تھوڑی دیر کے بعد ملا صاحب چکنور کی بزرگی اور مقام کی طرف توجہ دلائی تو بادشاہ سلامت نے فرمایا کہ ’’کوئی سا ریچھ بھی ہو میں ان سب کو جلد انسان بنا دوں گا۔‘‘

اس فضا میں امان اللہ خان نے اس ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا جسے ’’1928ء کا انقلاب افغانستان‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات جن اصلاحات سے ہوئی ان میں مردوں کے لیے مغربی لباس کے استعمال کی پابندی، ایک سے زیادہ نکاح کی قانونی ممانعت اور پردہ کے قانونی خاتمہ کے قوانین شامل تھے جن کے لیے محلوں میں نگران مقرر کیے گئے کہ کوئی عورت برقع پہن کر گھر سے باہر نہ نکلے۔ اور سڑکوں پر پولیس کھڑی کر دی گئی جو ہر اس گزرنے والے سے جرمانہ وصول کرتی تھی جس نے یورپی لباس نہ پہن رکھا ہو۔ ادھر گھر کی حالت یہ تھی کہ عزیز ہندی کے بقول ایک روز کسی خادمہ سے قرآن کریم کے کچھ اوراق گر گئے جو اس نے اٹھا کر چومنا شروع کر دیے تو بادشاہ بیگم نے اسے ٹوکا کہ یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ کلام پاک ہے۔ اس پر بادشاہ بیگم نے کہا کہ اس سے بڑھ کر بھی کتابیں لکھی جائیں گی اس لیے ان عقائد کو تہ کر کے رکھ دو اور آدمیت سیکھو۔

اس پس منظر میں امیر امان اللہ خان نے افغانستان میں جس ثقافتی انقلاب کی طرف پیش رفت کرنا چاہی اس کا نتیجہ ’’بچہ سقا‘‘ کی صورت میں ہی نمودار ہونا تھا کہ یہ فطری عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے اگر آج بھی کسی کے دماغ میں کسی مسلم معاشرہ میں یورپی ثقافت کو بہ نوک سنگین رائج کرنے کا اور ویسٹرن کلچر کو فروغ دینے کا خیال کلبلا رہا ہو تو اسے ’’بچہ سقا‘‘ کا یہ کردار اپنے سامنے ضرور رکھنا چاہیے کیونکہ ترکی کے ایک تجربہ کے بعد دنیا کا کوئی اور مسلم ملک اس راستہ پر چلنے کے لیے آج تک تیار ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم