انارکلی بازار جنوبی ایشیاء کا قدیم بازار ہے جو دو سو سال سے زیادہ پرانا ہے۔ یہ لاہور کی مال روڈ پر واقع ہے۔ اس کا نام مغلیہ عہد کے مشہور کردار انارکلی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

مملوک سلطنت کے سلطان قطب الدین ایبک کا مزار

لاہور کا پرانا انارکلی بازار پہلے وجود میں آیا جب کہ بارونق اور نئے بازار کا قیام بعد کا ہے۔ انارکلی بازار کی سائیڈ والی گلی میں قطب الدین ایبک کا مزار بھی موجود ہے جب کہ اس کے قریب معروف شاعر احسان دانش کی بک شاپ تھی

تاریخی جائزہ ترمیم

انارکلی بازار جنوبی ایشیا کا قدیم بازار ہے جو دو سو سال سے زیادہ پرانا ہے۔ یہ لاہور کی مال روڈ پر واقع ہے۔ اس کا نام مغلیہ عہد کے مشہور کردار انارکلی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ لاہور کا پرانا انارکلی بازار پہلے وجود میں آیا جب کہ بارونق اور نئے بازار کا قیام بعد کا ہے۔ انارکلی بازار کی سائیڈ والی گلی میں قطب الدین ایبک کا مزار بھی موجود ہے جب کہ اس کے قریب معروف شاعر احسان دانش کی بک شاپ تھی تقسیم سے قبل انارکلی بازار سمیت شہر کی مارکیٹوں اور اداروں میں ہندو تاجروں کا کنٹرول تھا۔ مسلمان تاجروں کی کنی چنی دکانیں تھیں۔ جوتوں کے کاروبار پر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی۔ البتہ مسلمان تاجر اتنے بھی کم نہ تھے کہ جتنے ہمیں بتائے جاتے ہیں۔ انارکلی بازار میں مسلمان رﺅسا کی بڑی جائیدادیں تھیں۔ شہر کے باسی لوہاری دروازے کے راستے سرکلر روڈ عبور کرکے انارکلی میں داخل ہوتے تھے جبکہ راج گڑھ‘ کرشن نگر‘ اچھرہ‘ مزنگ‘ ماڈل ٹاﺅن سمیت دیگر علاقوں سے آنے والے مال روڈ‘ کچہری روڈ اور نیلا گنبد کی طرف سے انارکلی بازار داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگ گنپت روڈ‘ پیسہ اخبار‘ ایبک روڈ دھنی را م روڈ اور آبکاری روڈ سے بھی انارکلی بازار میں داخل ہوتے تھے۔ انارکلی بازار میں کپڑوں کی مشہور دکانوں میں دونی چند اینڈ سنز‘ راجا اینڈ برادرز‘ موہن لال اینڈ سنز‘ کراچی کلاتھ ہاﺅس‘ درگاداس اینڈ کمپنی اور ممبئی کلاتھ ہاﺅس کی دکانیں شامل تھیں۔ ان دکانوں پر ہر قسم کا ہندوستانی‘ ولایتی‘ جاپانی اور دیگر ممالک کا کپڑا دستیاب تھا۔ قیمتیں آج کے مقابلے میں بہت ہی کم تھیں۔ 1930 کی دہائی میں ایک اعلیٰ معیاری انگلش وولن سوٹنگ کا ریٹ پانچ سے سات روپے فی گز تھا جبکہ عمدہ ترین ریشمی کپڑا جسے دو گھوڑا بوسکی کہا جاتا تھا بارہ آنے گز مل جاتا تھا۔ انارکلی بازار میں ساڑھیوں کی مشہور دکان میسرز اوشناک مل مول چند تھی۔ جن کی دکان کناری بازار لاہور میں تھی۔ سلک اور ساڑھیوں کی یہ بہت بڑی دکان تھی۔ ساڑھیوں میں مشہور فرانسیسی جیورجٹس اور شیفونز ایک روپے گز اور بہترین ولایتی ٹائیگر برانڈ سوتی وائل چھ آنے گز مل جاتی تھی۔ کاٹن شرٹنگ کی بڑی تعداد جیسے پالین‘ نویل‘ ٹو برالکو‘ ایرٹیکس وغیرہ چھ سے آٹھ آنے فی گز تھی۔ چابی مارکہ ولایتی لٹھا جو اس زمانے میں بہت مشہور تھا چار آنے فی گز اور پگڑیوں کے لیے عمدہ ململ چار آنے فی گز دستیاب تھی۔ انارکلی میں جوتوں کی سب سے بڑی اور مشہور دکان بھلے دی ہٹی تھی۔ ہندو جوتوں کے کاروبار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ بھلے دی ہٹی کا مالک دھی رام بھلہ لاہور کا وہ پہلا ہندو تھا جس نے اس ناپسندیدہ کاروبار کا آغاز کیا اور خوب ترقی کی۔ بھلے دی ہٹی انارکلی بازار کی پہچان تھی۔ دھنی رام بھلہ اپنی دکان کی مشہوری اشعار کے ذریعے بھی کرتا تھا۔ بھلے دی ہٹی انارکلی بازار کے علاوہ مال روڈ پر بھی تھی۔ 1940ءمیں 30اکتوبر کو عید اور 2 نومبر کو دیوالی تھی۔ اس موقع پر دھنی رام بھلے نے بھلے دی ہٹی کی طرف سے جو اشتہار شائع کیا اس کی ہیڈنگ ہے۔ ”سانجھی عید دیوالی” بھلے دی ہٹی کے اشتہارات پر جوتوں کے ڈیزائنوں کی تصویروں کے علاوہ قیمتیں بھی درج ہیں جو پانچ سے پندرہ روپے تک ہیں۔ بھلے دی ہٹی کے باہر ایک بڑا بوٹ رکھا ہوتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا جس کے پاﺅں میں آئے وہ لے جائے۔ انارکلی بازار میں جوتوں کی دوسری بڑی دکان ”کرنال شاپ“ تھی جو لاہور میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جوتوں کی دکان تھی اس کے سائن بورڈ کے الفاظ بھی لاہور میں سب سے بڑے سائز کے تھے جو تاج الدین زریں رقم نے لکھے تھے۔ یہاں جگر اور جوش آکر بیٹتے تھے۔ کرنال شوز کے مالک ”عبد المالک“ تھے۔ تیسرے نمبر پر چیف بوٹ ہاﺅس‘ چوتھے نمبر پر کاش شوز فیکٹری کا تھا۔ پانچویں نمبر پر مالوہ شو کمپنی تھی۔ چھٹے نمبر پر ڈلہوزی شوز اور اس کے بعد باٹا شوز کمپنی تھی۔ باٹا شوز کمپنی خصوصیت سے ربڑ‘ کینوس شوز بناتے تھے جو عام لوگوں کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ تقسیم سے قبل خواتین بہت کم جوتوں کی دکانوں پر جاتی تھیں۔ عام طور پر شوہر‘ باپ یا بھائی کاغذ پر پاﺅں کا ناپ لے لیتا اور خود اپنی پسند کی جوتی خرید کرلے آتا۔ عموماً سائز پورے ہوتے‘ بعض اوقات سائز میں کمی بیشتی یا ڈیزائن پسند نہ آنے پرجوتا تبدیل کروا لیا جاتا۔ اس دور کے اشتہارات پر جوتوں کے ڈیزائن کے ساتھ دکان میں موجود جوتوں کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ قیمت درج ہوتی تھی جس کا مقصد گاہک کو آگاہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ قیمت پوچھنے کی بجائے خریداری کرنے آئے۔ مزید یہ کہ جوتے بذریع ڈاک اور پارسل منگوانے کی سہولت بھی تھی۔ انارکلی بازار میں میڈیکل کی دو مشہور دکانیں ایک بیلی رام اینڈ سنز کیمسٹ دوسری نارائن اینڈ بھگوان داس کیمسٹ تھیں موجودہ انارکلی میں مختلف قسم کے کاروبار ہو رہے ہیں انارکلی کی شہرت نہ صرف برصغیر میں چھائی ہوئی ہے بلکہ پوری دنیا سے لاہور آنے والے سیاح انارکلی ضرور دیکھنے آتے ہیں۔ پاکستان کا دل لاہور کو کہا جاتا ہے اور لاہور کا دل انارکلی کو کہا جاتا ہے انارکلی کے ایک حصہ کو پرانی انارکلی کے نام سے پکارا جاتا ہے اس حصہ میں رات کے وقت فوڈ سٹریٹ بنا دی گئی ہے ور دن کے وقت یہاں مختلف کاروبار ہوتے ہیں سردیوں میں عموما پرانے کپڑوں اور جوتوں کا کاروبار ہوتا ہے جسے عرف عام میں "لنڈا " کہا جاتا ہے پرانی انارکلی سے جب سیاح نئی انارکلی کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو انھیں شاہراہ قائد اعظم یعنی مال روڈ سے گذرنا ہوتا ہے مال روڈ پر چڑھنے سے پہلے دائیں طرف مشہور حافظ جوس والے کی دکان ہے اور بائیں طرف ٹولنٹن مارکیٹ عجائب گھر کی عمارت ہے مال روڈ سے گذر کا جب سیاح نئی انارکلی میں داخل ہوتے ہیں تو دائیں طرف مشہور جوتا کمپنی کی دکان ہے اور بائیں طرف سیلانی کا لنگر خانہ ہے اس سے آگے بڑھیں تو دائیں طرف ادارہ اسلامیات کی برسوں پرانی بڑی دکان ہے اور بائیں طرف پاکستان بائیبل سوسائٹی کا دفتر ہے جہاں سے مسیحیت سے متعلق ہر قسم کا مواد دستیاب ہے اور اسی دفتر کے اندر ایک شاندار عجائب گھر بھی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اس میں سیدنا مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر ان کی زندگی کے تمام واقعات کو ماڈلز کی صورت میں بیان کیا گیا ہے ۔ اسی عجائب گھر میں بائیبل کے قدیم ترین نسخہ جات بھی موجود ہیں جو عبرانی لاطینی اور انگریزی زبان میں ہیں۔ اس سے آگے چلیں تو ایک قدیم مخروطی عمارت نظر آتی ہے جس کے بارے میں تاریخ دانوں کے مختلف اقوال ہیں اسے کنواں بھی کہا جاتا ہے مندر بھی کہا جاتا ہے اس سے آگے بڑھیں تو ایک کم چوڑی سڑک آجاتی ہے جو دائیں طرف نیلا گنبد کی طرف جاتی ہے جب کہ بائیں طرف جامعہ پنجاب کی طرف چلی جاتی ہے اس سے آگے بڑھیں تو اب انارکلی بازار کا پررونق حصہ شروع ہوجاتا ہے جس میں ہر قسم کے کاروبار ہورہا ہے ۔ کچھ آگے جاکر بانو بازار آجاتا ہے جو بائیں طرف ہے مزید آگے جا کر ایک تنگ سی گلی میں دائیں طرف مشہور دہلی مسلم ہوٹا آتا ہے اسی انارکلی بازار میں عنایت اللہ کی پرانی اور مشہور دکان ہے کچھ آگے چل کر بنسی لال کا پاٹھ شالا ہے اسی میں ایک پرانا مندر ہے اب یہ رہائش گاہ بن چکا ہے اسی کے ساتھ ایک بڑی سڑک پر دائیں طرف برصغیر میں خاندان غلاماں کی حکومت کے سربراہ قطب الدین ایبک کا پرشکوہ مزار ہے بائیں طرف گنپت روڈ ہے جس سے گذر کر اردو بازار کی طرف راستہ نکلتا ہے اور اگر سیدھا جائیں تو سرکلر روڈ آجاتاہے جس کے دوسری طرف لوہاری دروازہ ہے جس سے پہلے دائیں طرف مسلم مسجد ہے

قبل از تقسیم ہند ترمیم

تقسیم سے قبل انارکلی بازار سمیت شہر کی مارکیٹوں اور اداروں میں ہندو تاجروں کا کنٹرول تھا۔ مسلمان تاجروں کی کنی چنی دکانیں تھیں۔ جوتوں کے کاروبار پر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی۔ البتہ مسلمان تاجر اتنے بھی کم نہ تھے کہ جتنے ہمیں بتائے جاتے ہیں۔ انارکلی بازار میں مسلمان رﺅسا کی بڑی جائیدادیں تھیں۔ شہر کے باسی لوہاری دروازے کے راستے سرکلر روڈ عبور کرکے انارکلی میں داخل ہوتے تھے جبکہ راج گڑھ‘ کرشن نگر‘ اچھرہ‘ مزنگ‘ ماڈل ٹاﺅن سمیت دیگر علاقوں سے آنے والے مال روڈ‘ کچہری روڈ اور نیلا گنبد کی طرف سے انارکلی بازار داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگ گنپت روڈ‘ پیسہ اخبار‘ ایبک روڈ دھنی را روڈ اور آبکاری روڈ سے بھی انارکلی بازار میں داخل ہوتے تھے۔ انارکلی بازار میں کپڑوں کی مشہور دکانوں میں دونی چند اینڈ سنز‘ راجا اینڈ برادرز‘ موہن لال اینڈ سنز‘ کراچی کلاتھ ہاﺅس‘ درگاداس اینڈ کمپنی اور ممبئی کلاتھ ہاﺅس کی دکانیں شامل تھیں۔ ان دکانوں پر ہر قسم کا ہندوستانی‘ ولایتی‘ جاپانی اور دیگر ممالک کا کپڑا دستیاب تھا۔ قیمتیں آج کے مقابلے میں بہت ہی کم تھیں۔ 1930-40 کی دہائی میں ایک اعلیٰ معیار انگلش وولن سوٹنگ کا ریٹ پانچ سے سات روپے فی گز تھا جبکہ عمدہ ترین ریشمی کپڑا جسے دو گھوڑا بوسکی کہا جاتا تھا بارہ آنے گز مل جاتا تھا۔ انارکلی بازار میں ساڑھیوں کی مشہور دکان میسرز اوشناک مل مولچند تھی۔ جن کی پراری دکان کناری بازار لاہور میں تھی۔ سلک اور ساڑھیوں کی یہ بہت بڑی دکان تھی۔ ساڑھیوں میں مشہور فرانسیسی جیورجٹس اور شیفونز ایک روپے گز اور بہترین ولایتی ٹائیگر برانڈ سوتی وائل چھ آنے گز مل جاتی تھی۔ کاٹن شرٹنگ کی بڑی تعداد جیسے پالین‘ نویل‘ ٹو برالکو‘ ایرٹیکس وغیرہ چھ سے آٹھ آنے فی گز تھی۔ چابی مارکہ ولایتی لٹھا جو اس زمانے میں بہت مشہور تھا چار آنے فی گز اور پگڑیوں کے لیے عمدہ ململ چار آنے فی گز دستیاب تھی۔ انارکلی میں جوتوں کی سب سے بڑی اور مشہور دکان بھلے دی ہٹی تھی۔ ہندو جوتوں کے کاروبار کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ بھلے دی ہٹی کا مالک دھی رام بھلہ لاہور کا وہ پہلا ہندو تھا جس نے اس ممنوعہ کاروبار کا آغاز کیا اور خوب ترقی کی۔ بھلے دی ہٹی انارکلی بازار کی پہچان تھی۔ راقم کے آرکائیو میں بھلے دی ہٹی کے بیسیوں اشتہار محفوظ ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دھنی رام بھلہ اپنی دکان کی مشہوری اشعار کے ذریعے بھی کرتا تھا۔ بھلے دی ہٹی انارکلی بازار کے علاوہ مال روڈ پر بھی تھی۔ 1940ءمیں 30اکتوبر کو عید اور 2 نومبر کو دیوالی تھی۔ اس موقع پر دھنی رام بھلے نے بھلے دی ہٹی کی طرف سے جو اشتہار شائع کیا اس کی ہیڈنگ ہے۔ ”سانجھی عید دیوالی” بھلے دی ہٹی کے اشتہارات پر جوتوں کے ڈیزائنوں کی تصویروں کے علاوہ قیمتیں بھی درج ہیں جو پانچ سے پندرہ روپے تک ہیں۔ بھلے دی ہٹی کے باہر ایک بڑا بوٹ رکھا ہوتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا جس کے پاﺅں میں آئے وہ لے جائے۔ انارکلی بازار میں جوتوں کی دوسری بڑی دکان ”کرنال شاپ“ تھی جو لاہور میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جوتوں کی دکان تھی اس کے سائن بورڈ کے الفاظ بھی لاہور میں سب سے بڑے سائز کے تھے جو تاج الدین زریں رقم نے لکھے تھے۔ یہاں جگر اور جوش آکر بیٹتے تھے۔ کرنال شوز کے مالک ”عبد المالک“ تھے۔ تیسرے نمبر پر چیف بوٹ ہاﺅس‘ چوتھے نمبر پر کاش شوز فیکٹری کا تھا۔ پانچویں نمبر پر مالوہ شو کمپنی تھی۔ چھٹے نمبر پر ڈلہوزی شوز اور اس کے بعد باٹا شوز کمپنی تھی۔ باٹا شوز کمپنی خصوصیت سے ربڑ‘ کینوس شوز بناتے تھے جو عام لوگوں کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ تقسیم سے قبل خواتین بہت کم جوتوں کی دکانوں پر جاتی تھیں۔ عام طور پر شوہر‘ باپ یا بھائی کاغذ پر پاﺅں کا ناپ لے لیتا اور خود اپنی پسند کی جوتی خرید کرلے آتا۔ عموماً سائز پورے ہوتے‘ بعض اوقات سائز میں کمی بیشتی یا ڈیزائن پسند نہ آنے پرجوتا تبدیل کروا لیا جاتا۔ راقم کے آرکائیو میں کرنال شاپ‘ چیف بوٹ ہاﺅس‘ پرکاش شوز‘ بالوہ شوز‘ ڈلہوزی شوز اور باٹا کمپنی انارکلی کی دکانوں کے اشتہارات محفوظ ہیں۔ اس دور کے اشتہارات پر جوتوں کے ڈیزائن کے ساتھ دکان میں موجود جوتوں کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ قیمت درج ہوتی تھی جس کا مقصد گاہک کو آگاہ کرنا ہوتا تھا کہ وہ قیمت پوچھنے کی بجائے خریداری کرنے آئے۔ مزید یہ کہ جوتے بذریع ڈاک اور پارسل منگوانے کی سہولت بھی تھی۔ انارکلی بازار میں میڈیکل کی دو مشہور دکانیں ایک بیلی رام اینڈ سنز کیمسٹ دوسری نارائن اینڈ بھگوان داس کیمسٹ تھیں

بیرونی روابط ترمیم