اوگت اوکتم تینور ترکی کی پہلی نیورو سائیکالوجسٹ ہیں [1][2] ، وہ 1935 میں پیدا ہوئیں۔  2017 میں ایک پٹیشن پر دستخط کیے، جس میں کردوں کے علاقے میں حکومت کے فوجی آپریشن کو روکنے کی اپیل کی گئی،  اس پر ترک حکومت نے ان پر "دہشت گرد پروپیگنڈے" کا الزام عائد کر دیا[3]۔

اوگت اوکتم تینور
معلومات شخصیت
پیدائش 1930ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ترکیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ماہر نفسیات   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان ترکی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ترکی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل عصبی نفسیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوکریاں استنبول یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیشہ ورانہ زندگی ترمیم

سال 2016 کے انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ وہ نفسیات اور نیورولوجی میں 15 سال کی عمر سے ہی دلچسپی رکھتی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں خاندان میں بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے میڈیسن کی پڑھائی میں دلچسپی کا اظہار کیا، خاندان والے چاہتے تھے کہ وہ قانون کی تعلیم حاصل کریں [4]۔ ان کے مطابق کولمبیا اسکول اور جن یونیورسٹی میں گذرے سالوں نے انھیں نفسیات کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے 1981 میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور انقرہ میں آکر 1983 میں کام شروع کیا۔

ترکی کی پہلی نیورو سائیکالوجسٹ کہا جاتا ہے، انور نے ترکی میں پہلا ہیرو سائیکالوجی کا کلینک [5][6][7] شروع کیا۔ آج کل وہ استنبول یونیورسٹی میں ایمریٹس پروفیسر ہیں، متعدد اداروں میں مہمان لیکچرر کے طور پر شرکت کر چکی ہیں [1][5]۔ اور ترکی کے انتہائی قابل عزت عالموں میں گنا جاتا ہے۔ ان کے شاگردوں کے بقول "وہ ایک بہت محنتی اور خوشگوار طبیعت کی مالک ہیں، خاص طور پر جب بات ہو پڑھانے اوراپنے علم اور  تجربات کو شیئر کرنے کی۔ "

دہشت گردی کا الزام ترمیم

انور اپنے خاوند بلنٹ نور جو قانون کی تفیسر 1971 کے فوجی قبضے کے بعد ملک چھوڑ کر چلی گئی تھی مگر حلال معاف ہونے کے بعد دوبارہ وطن واپس آکر تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئیں۔ ارتھ طیب اردگان کی حکومت کی طرف سے ان پر دہشت گرد کا الزام لگایا گیا ہے جس کی وجہ پٹیشن آئی جس میں ترکی کے کرد علاقوں میں فوجی آپریشن کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔ وہ ملک سے باہر سفر نہیں کر سکتی اور سول سرونٹ کے طور پر بھی ان کے جو حقوق تھے اب ان کے پاس نہیں رہے ہیں۔ تنور کا شمار تدریس سے وابستہ سینکڑوں افراد اور سول سروس سے وابستہ تقریبا ایک لاکھ افراد سے ہے جن کے حقوق 2016 میں ترک فوجی بغاوت کے نتیجے میں سلب کر لیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی پابندیوں کا مقصد آپریشن کی آواز کو خاموش کرنا ہے اور انھوں نے پڑھائی نہ جانے کے اقدام پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

آرٹیکل 301 ٹرکش پینل کوڈ

ترکی میں انسانی حقوق

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Mark Lowen (13 April 2017)۔ "Erdogan's Turkey"۔ بی بی سی نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2017 
  2. Burchard Von Amory (17 February 2017)۔ "Warum Erdogan die Universitäten schleift"۔ Der Tagesspiegel (بزبان جرمنی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2017 
  3. "Academic voices her fears for Turkey ahead of referendum"۔ BBC News۔ 13 April 2017۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2017 
  4. "Nöropsikoloji Üzerine Prof. Dr. Öget Öktem İle Söyleşi"۔ 28 October 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2017 
  5. ^ ا ب Rengin Arslan (13 February 2017)۔ "Turkey academics speak of fear and loss amid mass sackings"۔ BBC News۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2017 
  6. "Ji têkoşîna akademî û jiyana Oget Oktem Tanor şop"۔ Sujin Gazete۔ 11 February 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2017 [مردہ ربط]
  7. "Türkiye'nin ilk nöropsikoloğu Öget Öktem Tanör yeni KHK ile ihraç edildi"۔ Karar۔ 8 February 2017۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جون 2017