ایلسا قاضی (1884 تا 1967) کا اصل نام (انگریزی:Gertrude Loesch) ہے ،پیدائشی جرمن خاتون ہیں اور صوبہ سندھ، پاکستان میں "ایلسا ماں" کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔ انھوں نے متعدد افسانے، ناول، تاریخی کتابیںِ، ایک ایکٹ کے ڈرامے لکھے، اس کے ساتھ ساتھ وہ شاعرہ، مصورہ، موسیقار بھی تھیں۔

ایلسا قاضی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1884ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 28 مئی 1967ء (82–83 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات امداد علی امام علی قاضی   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ نغمہ ساز ،  موسیقار ،  مصنفہ ،  شاعرہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ان کی پیدائش جرمنی کے شہر روڈل سٹیٹ( Rudel Stadt) میں ہوئی ۔ وہ سندھی زبان میں مہارت کے ساتھ گفتگو نہیں کر سکتی تھیں لیکن وہ اپنے شوہر علامہ امام علی کاظمی کے تعاون سے شاہ عبد اللطیف کی منتخب شاعری کے چند بہترین انگریزی ترجمے کرنے میں کامیاب رہیں۔ انھوں نے کامیابی کے ساتھ ان اشعار کے متن اور مفہوم کو شاعرانہ انداز میں ترتیب دیا، جس میں موسیقی کے لحاظ سے ، سندھی بحور اور اوازن وہی بنیادی ڈھانچہ اور اظہار یہ برقرار رکھا جس میں شاہ عبدا للطیف بھٹائی نے انھیں ڈھالا تھا۔ شاہ عبدالطیف کی شاعری کا وہ ترجمہ جو ایلسا کاظمی نے کیا اسے بہت سے ناقدین انگریزی میں بہترین ترجمہ سمجھتے ہیں۔ [3] [4] [5] [6]

ابتدائی زندگی اور شادی ترمیم

ایلسا جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں روڈیل اسٹڈٹ میں ایک موسیقار کے گھر میں پیدا ہوئیں، ان کے والد لندن ہجرت کر گئے۔ ان کا پیدائشی نام گیرٹروڈ لوش تھا، شادی کے بعد انھوں نے ایلسا کا نام منتخب کر لیا۔ اس کے والد مرحوم مسٹر ایلڈرمین ایک خوش حال جرمن تھے، دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کی جائداد تباہ ہو گئی، تباہ ہونے والی لندن جائداد کی زر تلافی ایلسا کو جنگ کے بعد ملی۔ لندن میں ، وہ برطانوی ہند کے تحت سندھ سے تعلق رکھنے والے ، فلسفی ، علامہ امام علی کاظمی سے اتفاقیہ طور پر ملیں۔ علامہ کاظمی، جب ریلوے اسٹیشن پہنچے تب تک ٹرین چلنا شروع ہو گئی تھی، وہ آخری خانے میں جانے میں کامیاب ہو گئے جو تقریباََ خالی تھا: اس کے ایک کونے میں تنہا نوجوان خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ روایتی خاندانی پس منظر میں پلے بڑھے کاظمی کو حیا بھی آئی اور شرمندگی بھی محسوس ہوئی۔وہ خاتون کی طرف پیٹھ کرکے دروازے کے قریب کھڑے رہے۔ ایلسا حیران ہوئیں اور ایک ایسے شخص سے مل کر انھیں بہت خوشی ہوئی جو ان کی بار بار پیش کش کے باوجود نشست پر نہیں بیٹھا اور صرف معذرت ہی کرتا رہا۔ اس جوڑے کی شادی 1910 میں جرمنی میں ہو گئی۔

تصانیف ترمیم

ان کا کام متعدد ڈاکٹریٹ کے مقالوں کا موضوع رہا ہے۔ [7] وہ بچوں کے لیے اپنی کہانیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ [8] مزید برآں ، واشنگٹن لائبریریوں کی یونیورسٹی نے ان کے مندرجہ ذیل کاموں کو جنوبی ایشیا کا بہترین ادب (ہندوستان کی تقسیم سے پہلے) قرار دیا ہے:

  • کتاب "ترغیب: تین ایکٹ میں سندھ کی دیہی زندگی کا ڈراما" (Temptation: a drama of Sind country life in three acts)
  • 1942 میں "ایلوئین: زائد دبے بربطی سر" (Aeolian: notes of an overstrung lyre) ۔ [9]

ایلسا ماں ترمیم

ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی لیکن تمام شاگرد انھیں ایلسا ماں( Mother Elsa) کے نام سے پکارتے تھے۔

شاعرہ ترمیم

آپ نے شاہ جو رسالو کو انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے۔ آپ اعلیٰ پائے کی شاعرہ تھیں۔

وفات ترمیم

ایلسا قاضی 28 مئی 1967ء کو 83 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں مدفون ہیں۔[10]

حوالہ جات ترمیم

  1. او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL8816699A?mode=all
  2. کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی: https://id.loc.gov/authorities/n88177199 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 جون 2020 — ناشر: کتب خانہ کانگریس
  3. "I.I. Kazi remembered"۔ Dawn۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2016 
  4. Elsa Kazi۔ "Shah jo Risalo"۔ scribd.com۔ 01 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. Madam Elsa Kazi۔ "Indus Valley Civilization: Poetry of Great Sufi saint Shah Abdul Latif Bhitai Translated in English."۔ indusvalleycivilizationf.blogspot.com 
  6. Elsa Kazi۔ "Risalo of Shah Abdul Latif translated"۔ Academy of the Punjab in North America 
  7. "A study of the mystic element in the English poetry of Elsa Kazi"۔ eprints.hec.gov.pk۔ 14 نومبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2021 
  8. "The Neem tree"۔ usingenglish.com۔ 05 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2021 
  9. "South Asian Literature in English, pre-Independence era"۔ lib.washington.edu۔ 15 جون 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  10. "آرکائیو کاپی"۔ 30 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2017