بابا جمال جن کا پورا نام جمال الدین تھا کی پیدائش 1901ء میں شہر بہرائچ[1] میں ہوئی تھی۔ بابا جمال اپنے دور کے بہت مشہور خوش مزاج شاعر تھے۔ آپ نے عربی فارسی کی تعلیم حکیم سید ولایت حسین وصل ؔ نانوتوی تلمیذ میر نفیس ابن میر انیس سے حاصل کی جو اپنے عہد کے عربی اور فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ جمال بہرائچی پورے شہر بہرائچ میں بابا جمال کے نام سے مشہور و معروف تھے۔ آج بھی لوگ آپ کو بابا جمال کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔

جمال الدین جمال بہرائچی
پیدائشجمال الدین
1901ء
محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات14جون 1976ء
محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ اتر پردیش بھارت
پیشہشاعر،تجارت
زباناردوفارسی
قومیتبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیماردوفارسی
موضوعنعت ،غزل

حالات ترمیم

بابا جمال کی دوستی مولانا محفوظ الرحمن نامی سے زیادہ تھی[1]۔ بابا جمال نہایت خوش گو،خوش اخلاق اور خوش کلام تھے۔ حدائق البلاغت ان کے بغل میں دبی رہتی تھی۔ زودگو ہونے کے ساتھ ساتھ قادرالکام شاعر تھے۔ آپ کا تکیۂ کلام بھیا تھا۔ آپ کی شہر کے قلب گھنٹہ گھر کے پاس کتابوں کی دکان تھی۔ آپ نے ایک تیل بھی ایجاد کیا تھا جس کا نام جمال ہیر آئل تھا۔ جو اپنے وقت میں خوب بکتا تھا۔ آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے دکان کا دیوالہ نکل گیا۔ ان کے بچے ان کے کہنے میں نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دکان کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مالک دکان نے عدالت کے ذریعہ دکان سے بیدخل کرادیا جس کی وجہ سے بیحد پریشان رہتے تھے۔ عبرت بہرائچی اپنی کتاب نقوش رفتگاں میں لکھتے ہے کہ میں نے بیکل اتساہیؔ کو خط لکھا۔ اور انھوں نے دوڑ دھوپ کر ان کا ساٹھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقررکرا دیا جو انھیں ہر ماہ ملتا تھا۔ بنجاروں کی طرح ان کا سب کچھ ان کے کاندھوں پہ رہتا تھا۔ یہاں تک کی سوئی تاگہ بھی جہاں چاہتے وہیں بیٹھ کر اپنا کرتا پائجامہ سی لیتے تھے۔ بابا جمال کو سلسل بول کی بیماری بھی تھی ،لہٰذا ایک لوٹا بھی ہم سفر تھا۔ ہر ایک کو بھیا کہہ کر پکارتے تھے۔ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ تنک مزاج ضرور تھے۔ پیدل چلنے کے عادی تھے۔[1]

ادبی خدمات ترمیم

بابا جمال کی ایک درسگاہ[1] تھی جسے وہ کھلے آسمان کے نیچے گھنٹہ گھر میں اشوک کے پیڑ کے نیچے لگاتے تھے اور اپنے شاگردوں کو عروض و بیان کی تعلیم دیتے تھے۔ بابا جمال اپنے عہد کے بہترین خیاط تھے۔ بابا جمال کے شاگروں میں تعداد بہت ہے اس میں چار نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ نعمت بہرائچی،رزمی بہرائچی،شاعر جمالی اور پارس ناتھ بھرمر۔ دو شاعروں شاعر جمالی اور صابر جمالی کے علاوہ کسی شاگرد نے آج تک اپنے تخلص کے ساتھ جمال نہیں لکھا۔ جمال بابا عربی و فارسی پر قدرت رکھتے تھے۔ لوگو ں کو نصیحت بہت کرتے تھے۔ کبھی کبھار مسجدوں میں وعظ بھی فرماتے تھے۔ عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ میں نے بھی جمال بابا سے دو کتابیں گلستاں اور بوستاں پڑھی ہیں۔ بابا جمال اتنے سیدھے تھے کہ وہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرپاتے تھے۔ آپ کو غزلوں پر اصلاح کرنے کا بیحد شوق تھا۔ شاعر ہو یا متشاعر جو بھی کہیں سے کوئی غزل لے کر آیا فوراََ اس کی اصلاح فرما دیتے تھے۔ عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب جگرؔ مرادآبادی کی ایک مشہور غزل لے کر برائے اصلاح بابا جمال کے پاس لائے۔ بابا جمال نے بغیر سمجھے بوجھے اس غزل کی مرمت کرد ی اور واپس کر دی۔ یہ تھا آپ کے سیدھے پن کا حال ۔[1] جہاں تک جمال بابا کی شاعرانہ صلاحیت کی بات ہے وہ علوم ادبیہ پر ماہر انہ قدرت رکھتے تھے۔ عروض و بیان سے ملکر شعر کہتے تھے۔ ان کے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔ ان کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔ اصول شعر پر دسترس رکھنے کی وجہ سے جمال بابا کا کلام ہر زہ سرائی سے پاک تھا۔ جمال بہرائچی کے یہاں تجربات اور مشاہدات کا بھی فقدان نہیں ان کے یہاں قدامت پرستی پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور جدیدیت سے گریز۔ بابا جمال اپنے ہر شعر کو کئی مرتبہ عروض و بیان کی کسوٹی پر کستے تھے۔ عبرت بہرائچی اپنی کتاب میں لکھتے ہے کہ یہ بات سو لاح آنہ درست ہے کہ ان کے دم سے نا جانے کتنے شاعر بن گئے لیکن افسوس ا س بات کا ہے اہل بہرائچ نے ان کی قدر نہیں کی۔[1]

ادبی شخصیات سے رابطہ ترمیم

شفیع بہرائچی،وصفی بہرائچی،ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالیؔ،واصل بہرائچی ،رافت ؔ بہرائچی،بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ بہرائچی،خواجہ ریئس ،شوق بہرائچی،کیفی اعظمی،واصف القادریایمن چغتائی نانپاروی سجاد حسین طورؔ جونپوری ثم نانپاروی وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔

وفات ترمیم

بابا جمال بہرائچی کی وفات 1982ء کو شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔ اور انھیں شہر کے چھڑے شاہ تکیہ قبرستان میں تدفین کی گئی۔ جس میں بڑی تعداد میں عوام اور ادب نوازوں نے حصہ لیا تھا۔

نمونہ کلام ترمیم

1.

چمن چمن سے بدلی فضا فضا سے پو چھے کوئی صبا سے کیا ہو گیا ہے کیا سے
دلوں کے ساتھ آخر تو لے گئے چمن میں کانٹے لپٹ گئے جو دامان مصطفی سے

2.

کھڑاتے ہوئے پتھر یہ صدا دیتے ہیں آبشاروں میں بھی ہے جان غزل خواں کوئی
چمن کی تختہ بندی کہ ہیں نور و نار یکجا وہیں بجلیوں کا مسکن وہیں میرا آشیانہ
ہے احساس مجبوری تو تب اے باغباں ہوتا کہ میری برق ہوتی اور تیرا آشیاں ہوتا

[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج نقوش رفتگاں از عبرت بہرائچی