بادشاہی سرف اللہ کی ہے یہ عقیدہ کہ انسان کے تمام اعمال و افعال خدا کی طرف سے پہلے سے قرآن مجید میں طے کردہ ہوتے ہیں بہت قدیم ہے۔ اس عقیدے کے آثار سمیری، مصری اور اشوری تہذیبوں میں بھی ملتے ہیں۔ ان قوموں کے عقیدہ کے مطابق انسان بالکل آزاد ہے اور خدا نے نیکی کے بدلے نیکیاں بہت ساری عطافرماے کا ذیکر قرآن مجید میں بی کیا ہے اور بدی کے بدلے جیسی کرو گے ویسہ ہی حاصل کرو گے اور انسانی برتاؤ میں خوش حالی اخلاقی کے بدلے بہتر زندگی حاصل کرو، انسانی عمل کے مطابق پہلے سے انسان کے لیے طے کر رکھی ہے اور خدا کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

اسلام میں عقیدۂ تقدیر ترميم اسلام میں تقدیر بارے 3سے ذیادا قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں :

1. جبریہ کا عقیدہ ترميم واصل ابن عطا جبریہ فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں تقدیر کا پابند ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی تقدیر کی وجہ سے وہ سب کرنے پر مجبورِ محض ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسہ بالکل نہی کیوں کے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرفعل مخلوقات بنایا ہے اور یہ بتا دیا ہے کے جیسے تمارے عمال ہوں گے ویسہ ہی تم پھل حاصل کرو گے اور یہ بی کہا کے کے تماری زندگی کی رسی سرف اللہ کے حاتھ میں ہیں یہ نہی کے تم گناہ پر گناہ کرتے رہو تو اللہ فوری عزاب نہی بھیجتی اللہ انسان کو بار بار چھوٹی یا بڑی آزمائشوں سے بی انسان کو سمجھانے کی کوشش کرتاہے لیکن جب انسان ہد سے بھڑکاتا ہے تو پھر اس کا ٹھیکانا جہنم ہی ہے یہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بہت ساری آیات میں فرمایا ہے

نتیجہ: انسان اپنے ہر بورے عمل کا حساب دینے کا پابند ہے، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔ 2. قدریہ کا عقیدہ ترميم جہم بن صفوان قدریہ فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں آزاد اور خود مختار ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے سب اپنی مرضی سے کرتا ہے۔

نتیجہ: انسان اپنے ہر عمل کا حساب دینے کا پابند ہے، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔ 3. معتدل عقیدہ ترميم جبریہ اور قدریہ کے برخلاف اشاعرہ اور ماتریدیہ کا مسلک متوازن ہے۔ ان کے مطابق انسان اپنے بعض اعمال میں مجبور ہے اور بعض میں مختار ہے۔

نتیجہ: انسان اپنے انہی اعمال کا حساب دینے کا پابند ہوگا جو وہ اپنی رضا و رغبت سے کرتا ہے۔ مجبوری میں کیے جانے والے اعمال کی بابت اس سے باز پرس نہیں ہو گی۔ ایک مثال ترميم سیدنا علی ابن ابی طالب سے کسی نے جبر و قدر بارے سوال کیا تو آپ نے بڑی سادہ مثال سے اسے واضح فرمایا۔ وہ آدمی کھڑا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا: ’’اپنا دایاں پاؤں زمین سے اٹھاؤ‘‘۔ اس نے اٹھا لیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب دوسرا پاؤں بھی اٹھاؤ‘‘۔ اس نے کہا اس طرح تو میں گر جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’انسان ایک وقت میں ایک پاؤں اٹھانے پر مختار ہے اور ایک ساتھ دونوں پاؤں نہ اٹھا سکنے پر مجبور ہے۔ ‘‘ یہی راہِ اعتدال ہے۔

اللہ عربی زبان کا لفظ جس کے معنی خدا ہیں دیگر زبانیں زیر نظر کریں ترميم اللہ عربی زبان میں خالق کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔، [1] خالق تخلیق کرنے والے کو کہا جاتا ہے اور فارسی اور اردو زبانوں میں اللہ کے لیے خدا اور پروردگار کے الفاظ بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ کھوار زبان میں اللہ کے لیے خدای کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ انگریزی زبان کے لفظ God کا عربی متبادل ہے۔ یہ لفظ مسلمانوں کی زبانوں تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسیحی، یہودی اور بعض اوقات دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خدا واحد کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں اور بائبل کے عربی تراجم میں God کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے[2]


اللہ کا نام ــ اسلام میں اللہ کا تصور اللہ کے ننانوے نام

____ سورہ یونس آیت 104

اور وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں فرشتے اس کی عبادت کرتے اور کسی کی نہیں۔

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالٰی ہی کی ملکیت ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور نہ ہی تھکتے ہیں۔

___ سورہ الانبیاء آیت 19

اللہ تعالٰی کے علاوہ جتنے بھی جھوٹے معبود ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ تو نفع اور نقصان کے مالک ہیں اور نہ ہی پیدا کرنے اور رزق دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھارے کسی نفع اور نہ ہی نقصان کے مالک ہیں اللہ ہی خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ ___ سورہ مائدہ آیت72

اور رب جل جلالہ کا فرمان ہے :

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ اے عیسی بن مریم کیا تم نے ان لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو عیسی (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اللہ تو غیبوں سے پاک ہے مجھے یہ کسی طرح بھی زیبا نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا بے شک تو تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے میں نے انھیں وہی کہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ تم اللہ تعالٰی کی عبادت اور اس کی بندگی اختیار کرو جو میرا اور تمھارا رب ہے میں تو ان پر اس وقت تک گواہ رہا جب تک کہ میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو توں ہی ان پر مطلع ،/مطلب قادر//رہا ہے اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھنے والا ہے۔

بادشاہی سے مراد قانون بنانے کی آزادی ہے، جس کو یہ آزادی ہو وہ بادشاہی کا مالک اور جس پر قانون لاگو ہوں وہ محکوم کہلاتا ہے۔ میرے اسلامی عقیدے کے مطابق بادشاہی صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے، یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے قانون (بذریعہ پیغمبر) ہی زمین پر لاگو ہونے کے اہل ہیں۔

خلافت کے ذریعہ یہ قوانین نافذ ہونا ہم مسلمانوں کی سرف سوچ نہی بلکے حق ہے۔ دنیا میں گذرے اکثر بادشاہ اس بادشاہی کے دعوٰی دار رہے ہیں اور انہی معنوں میں خدائی کے دعوی دار بھی تھے ۔[1] عیسائیوں میں بادشاہ کی بادشاہی اسی معنی میں قابل قبول تھی جس معنوں میں مسلمان خلیفہ کی سربراہی قبول کرتے ہیں۔ اس طرح اب تک بیشتر یورپی ممالک میں بادشاہت کا تخت قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں جمہوریت کے نظام کے تحت یہ سوچ مروج ہو گئی ہے کہ پارلیمنٹ کو بادشاہی حاصل ہے، یعنی جو قانون چاہے بنانے میں آزاد ہے۔ کچھ ممالک میں اس قانونی آزادی پر کچھ قدغنیں بتائی جاتی ہیں۔ مثلاً کینیڈا کے قانون میں پارلیمنٹ "چارٹر آف فریڈم" کے خلاف قانون بنائے تو اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں "بل آف رائٹس" کا نام لیا جاتا ہے۔ اکثر اسلامی ممالک کے آئین (جیسا کہ پاکستان) میں یہ شق شامل ہے کہ پارلیمنٹ قرآن اور سنت نبویﷺ سے متصادم کوئی قانون نہیں بنائے گی۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بادشاہی صرف اللہ کی ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے ٹھکیداروں کو البتہ یہ صورت گوارا نہیں اور وہ دنیا بھر مٰیں جب جمہوریت پھیلانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں تو اس میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انسان (یعنی پارلیمنٹ) کی بادشاہی دنیا کے ہر ملک میں قبول کی جائے اور حضرت امام علی علیہ اسلام کے بناے قانون کے مطابق انسان کبی کسی دوسرے انسان پر نا تو کوی ظلم کر سکتہ ہے اور نا ہی کوی سیاسی حاکم بن کر غریبوں کو مہنگائ کی بھوک سے مجبور کر سکتہ ہے اسلامی قانون کے مطابق حکمران خد کے کھانے سے پہلے اپنی پجا عوام کے کھانے پینے رہنے اور تن کو پردے میں رکھنے کو ترجیح دیتہ ہے مطلب روٹی کپڑا مکان یہ سب پورا کرنا اسلام میں حاکم وقت کا کام ہے اور جو حاکم عوام کو غربت میں ڈالدے اور خد ایاشی میں مگن ہو ایسے حکمران کی سزا بی بہت سخت ہے امام علی علیہ اسلام کے قانون میں کیوں کے جو حاکم فرعون کے نقشے قدم پر چلے وہ اللہ کا بڑا دشمن ہے کیوں کے اسلام میں انسانیت کا درس ہے چاہے انسان کسی بی مذہب سے ہو لیکن ہے وہ انسان اور اللہ تعلی نے کسی بھی انسان کو بغیر کسی ٹوس وجہ کے دوسرے انسان پر ظلم کرنے سے یاں بورا بھلا کہنے سے منہ کیا ہے

حوالہ جات ترمیم

سانچہ:حوالہ خلیفہ مہدی جات

  1. مولانا مودودی،تفہیم القران