بال ٹھاکرے (1927ء-2012ء) بھارتی انتہا پسند لیڈر اور بھارت کے صوبہ مہاراشٹر کی انتہا پسند جماعت شیو سینا کا سربراہ۔

بال ٹھاکرے
(مراٹھی میں: बाळ केशव ठाकरे ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Bal Thackeray تفصیل=
Bal Thackeray تفصیل=

بانی اور سابق صدر شیو سینا
مدت منصب
19 جون 1966 – 17 نومبر 2012ء
عہدہ قائم
ادھو ٹھاکرے
معلومات شخصیت
پیدائش 23 جنوری 1926ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 نومبر 2012ء (86 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات مرض نظام قلب و عروقی   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب ہندو مت
جماعت شیو سینا   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بندومادھو ٹھاکرے
جے دیو ٹھاکرے
ادھو ٹھاکرے
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  صحافی ،  مصور ،  کارٹون ساز   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان مراٹھی ،  ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بال ٹھاکرے

ابتدائی زندگی ترمیم

بھارت کے ایک برہمن انتہا پرست خاندان میں پیدائش ہوئی۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ ایک کارٹونسٹ تھا؛ بعد میں اس کی جگہ چبھتے ہوئے فکروں نے لے لی۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے اسے ابتدا میں کامیابی ملی لیکن جلد ہی تنخواہ پر جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے اس نے نوکری چھوڑ دی اور بمبئی سے غیر مراٹھی لوگوں کو باہر رکھنے کے لیے ایک تحریک شروع کی۔

شیو سینا ترمیم

بال ٹھاکرے نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اور 1966ء میں شیو سینا قائم کی جسے مراٹھی ہندو راجا شیوا جی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ شیوا جی کو بعض مورخ مغل بادشاہوں کے خلاف جدوجہد کے علم بردار کے طور پر پیش کر تے ہیں۔ بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی نوجوانوں کو انصاف دلوانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ غیر مراٹھیوں کے خلاف اس تحریک نے متعدد دفعہ تشدد کا رنگ اختیار کیا۔ شیو سینا میں بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر نہیں تھا۔ حتی کہ جماعت میں تنظیمی انتخابات کی بات کرنے کی بھی حماقت کسی نے نہیں کی۔ جن لوگو ں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی انھیں جماعت سے نکال دیا گیا۔ ان میں چھگن بھجبل بھی شامل تھے جو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ جب 1995ء میں مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی، تو حکومت سے باہر رہنے کے باوجود تمام فیصلے بال ٹھاکرے ہی کرتا تھا۔ اس نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ وہ ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلاتا ہے۔ اس کی جماعت مرکزی حکومت میں بھی شامل رہی اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر ہمیشہ دباؤ قائم رکھا۔ شیو سینا کے ایک رکن پارلیمان کی جانب سے وزیر اعظم کے قریبی معاونین پر بدعنوانی کے الزامات پر واجپئی اتنا ناراض ہوئے کہ انھوں نے استعفے کی پیش کش کر دی تھی۔ بعد میں 2005ء اور 2006ء میں شیو سینا میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ اور اس کے کئی کارکنان بال ٹھاکرے کی آمرانہ حکمت عملی کی وجہ سے جماعت سے علاحدہ ہو گئے۔ حتی کہ بال ٹھاکرے کے بھتیجے نے علاحدہ ہو کر ایک نئی جماعت بنائی۔

ہندوستانی تہذیب ترمیم

شیو سینا کی موقع حبالہ کے مطابق ہندوستان کی تہذیب ہندو ہے اور ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو اسے ماننا ہوگا۔ 1992ء میں جب بابری مسجد مسمار کی گئی تو بال ٹھاکرے نے کہا کہ یہ ’عظیم‘ کام شو سینکوں نے انجام دیا تھا جس پر مجھے فخر ہے۔

ہٹلر کا مداح ترمیم

بال ٹھاکرے نے کھلم کھلا ہٹلر کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کیا، اس کا کہنا تھا کہ جرمنی کے فسطائی رہنما کے بارے میں لوگ جو بھی کہیں، ہٹلر نے جو بھی کیا جرمنی کے حق میں ہی کیا۔

بال ٹھاکرے کی پوری سیاست اسی نظریہ کے ارد گرد گھومتی رہی اور اپنے مسلمان مخالف نظریہ کو وہ اسی تناظر میں پیش کرتا رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی مقبولیت میں اس کے اقلیت مخالف متنازع بیانات کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ قوم پرست طبقہ اس طرح کی باتیں سننا چاہتا ہے۔

زندگی قبل از وفات ترمیم

امراض قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا تھا۔ اس کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ بال ٹھاکرے میں پہلے جیسی شدت باقی نہیں رہی تھی۔ ممکن ہے کہ یہ سچ ہو لیکن بیانات میں تندی وتیزی اس وقت بھی قائم رہی۔

وفات ترمیم

بروز سنیچر 17 نومبر، 2012ء کو ممبئی کے ایک مقامی ہسپتال میں وفات ہوئی۔ موت کے وقت بال ٹھاکرے کی عمر 86 برس تھی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Bal-Thackeray — بنام: Bal Thackeray — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica