باولی

[1]

Gandhak Ki Baoli, one of the three baolis in مہرؤلی

The Baolis of Mehrauli are three water wells approached through single stage or three stage steps known as باؤلیs located in مہرؤلی in دہلی, India, in the Mehrauli Archaeological Park mainlined by the Archaeological Survey of India. These are the Anangtal Baoli, the Gandhak Ki Ba

گندک کی باولی ، مہرولی کے تین باؤلیوں میں سے ایک مہرولی کے Baolis ایک مرحلے یا کے طور پر جانا جاتا ہے کے تین مرحلے اقدامات کے ذریعے رابطہ کیا تین پانی کے کنوئیں ہیں stepwells میں واقع مہرولی میں دہلی ، بھارت میں مہرولی پراتتو پارک طرف mainlined بھارت کی پراتتو سروے . یہ اننگل باؤلی ، گندک کی باولی اور راجون کی باولی ہیں ۔ یہ زمینی سطح کے نیچے زمینی پانی کی عمارتوں کے طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور ہندو مت کے تناظر میں وہ قرون وسطی کے زمانے میں مزارات کی طرح تعمیر کیے گئے تھے۔

مقام مہروالی میں یہ تین باؤلی دہلی کے جنوب مغربی ضلع میں واقع ہیں ۔ قدیم مینار کے قریب ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے کے زیر انتظام آثار قدیمہ والے پارک میں دو گانٹھک کی باولی اور راجون کی باولی ، واقع ہے ۔ گندک کی باولی ( ادھم خان کے مقبرہ کے جنوب میں۔آثار قدیمہ کے پارک کی ایک حد پر ہے۔ راجون کی باولی اس باولی سے 200 میٹر (660 فٹ) دور ہے۔ اننگل باؤلی یوگمایا مندر سے 100 میٹر (330 فٹ) کے مغرب میں ، ایک محلے کے پیچھے اور آثار قدیمہ پارک احاطے کے باہر ایک جنگل میں ہے۔[2]

تاریخ ان تین بولیوں میں سب سے قدیم اننگل باؤلی 11 ویں صدی (1060 ء [3] ) میں اس وقت کے دار الحکومت دہلی کے لالخوت میں تومر خاندان کے راجپوت بادشاہ اننگپال دوم نے تعمیر کیا تھا ۔ Gandhak Ki کی Baoli خیال کیا جاتا ہے 13th صدی کے دوران تعمیر کیا گیا ہے جب غلام راجونش کے دہلی سلطنت التتمش (1211-1236 ء) دہلی پر حکومت کی. راجون کی باولی کا نام راجستریوں یا معمار کے نام پر رکھا گیا ہے جنھوں نے اسے استعمال کیا۔ یہ 16th صدی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا، کی طرف سے دولت خان کے دور حکومت کے دوران سکندر لودھی کے لودھی خاندان

(ہندی)مین تو پاگل عورت کو باولی کہتے ہین۔ لیکن اردو میں ایک ایسے لمبے اور چوڑے کنواں جس میں سیڑھیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں۔باولی کہلاتا ہے باغی کی تعریف انتہائی قدیم ہے۔ماضی میں یہ مذہبی حیثیت کے تالابوں کو کہا جاتا تھا۔لیکن تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو چھٹی صدی سے باغیوں کا وجود ملتا ہے برصغیر پاک و ہند کے ایسے علاقے جہاں خشک سالی کا موسم رہتا ہے وہاں ان کی بہتا ت ہے۔صرف گجرات میں 120 سے زیادہ باولیا ہیں۔پاکستان قلعہ روہتاس جہلم میں تین قدیم باوجود ہے۔مغل دور کی ٹیکسلا میں ڈسٹرکٹ راولپنڈی گوجرخان میں باولی تحصیل کلر سیداں میں باولی تحصیل کہوٹہ میں باولی آزاد کشمیر بھمبر آزاد کشمیر پلندری ڈسٹرکٹ گجرات کھاریاں میں مدت جی ٹی روڈ پر باویا پائی جاتی ہے باولا کی تانیث بڑا اور پکا کنواں جس میں سیڑھیاں بنی ہوتی ہیں سیڑھیوں والا گہرا تالاب آبی ذخائر کے لیے کھودا کا تھا ہندی میں سیڑھی والے کنویں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔معل اور دیگر مقامات پر کافی باؤلیاں بنوائیں ان کچھ تو اتنی بڑی ہے کہ ان میں ہاتھی اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے بعض باؤلیوں میں زیر زمین کئی خفیہ راستے بھی ملتے ہیں ۔ اکبر بادشاہ اور اس کے جانشینوں نے جہاں بھی راجپوت اورمعل کے دور کے قلعے ہیں وہاں یہ باؤلیاں ضرور ملتی ہیں ۔ وسیع تر پانی کے ذخائر کے لیے عمومی طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں " باولیاں " [3] ( stepwell ) ضروری ہوتی تھیں۔ کبھی رات کے کاموں کو سر انجام دینے کے لیے پانی کے ذخائر کو تعمیری کاموں میں استعمال ہوتی تھیں بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے بطور مستقل موجود رہتی تھیں۔ فی زمانہ متعدد باول یہ تفریح کا سامان ہے دہلی میں متعدد، لکھنؤ میں ایک، آلہ آباد باندہ روٹ پر کالنجراور چترکوٹ دوجگہ، سہسرام، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ کی تاریخی عمارتوں میں باولیاں سینکڑوں موجود ہیں ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ باولیاں باقی ہیں مثلاً لوسر باؤلی ( واہ کینٹ ) ، ہٹیاں ( چھچھ ) ضلع اٹک اور قلعہ روہتاس تین باولیاں (جہلم) میں. اس میں ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے ہیں۔بازی میں نہ صرف یہ پانی کا ذخیرہ تھے بلکہ گرمیوں میں آرام کرنے کی جگہ بھی تھے ۔۔ حکومتی عہدے دار اور عمرا وہاں اپنے دفتر اور آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے۔مجموعی طور پر برصغیر میں باغیوں کی تاریخ چوتھی صدی سٹی صدی تک جاتی ہے۔این بے کھیوڑا میں بنی ہوئی تاریخی باولی جو مکمل طور پر پتھر سے بنی ہے کاپی قدیم ہے

شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سی سڑکیں بنوائیں، یہ سڑکیں فوجی نقطہ نگاہ سے بھی بڑی اہم تھیں۔ سب سے بڑی سڑک کابل سے شروع ہوکر سنارگاؤں (بنگال) تک چلی گئی ۔ اس شاہراہ کا نام شاہراہ شیر شاہ سوری تھا جیسے برطانوی سامراج کے راج میں اس کا نام گرانٹ روڈ رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بڑی سڑکوں میں آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور وچتوڑ اور لاہور سے ملتان تک سڑکیں قابل ذکر ہیں۔

ان کے دو رویہ سایہ دار درخت لگوائے گئے تھے۔ ہر دو کوس کی مسافت پر ایک سرائے تعمیر کی گئی، سلطنت کی مختلف سڑکوں پر کل 1700 سرائیں تھیں ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ قیام و طعام کا بندوبست تھا۔ ہر سرائے کے بڑے دروازے پر لب سڑک ٹھنڈے پانی کے مٹکے بھرے رہتے تھے تاکہ مسافر پیاس بجھا سکیں۔