برطانیہ میں انسانی حقوق

برطانیہ میں انسانی حقوق قانون عامہ میں طاقم ہیں، جس کی جڑیں انگریزی حقوق نامہ 1689ء اور یورپی میں ہیں۔

موجودہ سیاسی ماحول ترمیم

اکیسویں صدی کے آغاز سے "دہشت گردی" برطانوی حکومت کے دماغ پر سوار ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کرنے والے کالے قوانین بنائے گئے ہیں۔ وقفے وقفے سے اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں کہ برطانوی پولیس نے چھاپہ مار کر "دہشت گردی" کی مبینہ کوشش ناکام بنا دی اور اتنے مسلمان گرفتار کر لیے۔ کالے قوانین کے تحت کسی کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے پابندِ سلاسل کیا جا سکتا ہے۔ ان کالے قوانین کا اطلاق اب "دہشت گردی" کے علاوہ ماحولیات سے متعلق احتجاج گذاران پر بھی ہونے لگا ہے۔[1]

عراق پر حملہ کو جائز ثابت کرنے کے لیے جھوٹے پراپیگنڈا میں برطانیہ پیش پیش رہا۔ پارلیمنٹ کے رکن گیلووے جو عراق جنگ کے مخالف تھے، لیبر پارٹی سے نکالنے کے بعد ان پر بدعنوانی کے الزامات ثابت کرنے کی کوشش عدالت میں ناکام ہو گئی۔ مگر پھر بھی پارلیمنٹ کی کمیٹی نے اپنے طور پر الزامات کو صحیح قرار دیا، اس وجہ سے کہ ٹونی بلیر کی بات زیادہ قابلِ اعتبار ہے بنسبت گیلووے کے۔ اس کے بعد گیلووے کی رکنیت "معطل" کر دی گئی۔[2]

لندن کے منتخب مئیر لیونگسٹون کو بھی ایک اخبارنویس سے "نازیبا" جملے کہنے پر ایک کمیٹی نے سزا کے طور پر کچھ عرصہ کے لیے معطل کر دیا۔[3] اگرچہ برطانیہ میں اظہارِ خیال کی آزادی کا پرپیگنڈا دن رات کیا جاتا ہے۔

  1. انڈیپینڈنٹ، 27 جولائی 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) " Another draconian attempt to curb Britain's civil liberties"
  2. WSWS, 26 جولائی 2007ء، "Britain: Antiwar MP George Galloway suspended from parliament "
  3. بی بی سی، 24 فروری 2006ء، "Mayor is suspended over Nazi jibe"