برٹش نیشنل پارٹی یا بی این پی BNP کسی بھی قوم پرست جماعت کی طرح برطانیہ کی ایک قوم پرست اور نسل پرست جماعت ہے جو ساٹھ کی دہائی میں نیشنل فرنٹ کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ نیشنل فرنٹ کے اراکین سکن ہیڈ یعنی گنجے سر بڑے بوٹوں اور مخصوص لباس کے ساتھ پہنچانے جاتے تھے۔ اس تنظیم کا سب بڑا نعرہ غیر ملکیوں کو باہر نکالو اور “برطانیہ سفید فام لوگوں کا ملک ہے “ تھا۔ حالیہ نسل پرست جماعت 1982 میں بی این پی کے نام سے قائم ہوئی اور نئے انداز سے سامنے آئی ہے۔ اس تنظیم نے اپنے نام میں تبدیلی کے ساتھ کام کے انداز میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ اب اس کے اراکین ٹائی کوٹ پہن کر اور بظاہر مہذبانہ لباس کے ساتھ اپنا پیغام پھیلا رہے ہیں۔ امریکا میں نو ستمبر دوہزار ایک کے واقعات کے بعد اس تنظیم کو نئی زندگی مل گئی اور اس نے برطانیہ میں قیام پزیر دیگر مذاہب کے لوگوں کی بجائے صرف مسلمانوں کو اپنا ہدف بنالیا۔ یہ تنظیم اپنے اشتہارات میں مسلم مخالف جذبات ابھارنے کے لیے کئی مرتبہ پاکستان کی امریکا اور جنگ مخالف مظاہروں کی تصاویر کو برطانیہ میں ہونے والے مظاہروں کا نام دیتی رہی ہے۔ حالیہ یورپی پارلیمان کے انتخابات میں بھی اس تنظیم نے امریکی فوجی کو برطانوی ظاہر کرکے اس کا بیان لکھا ہے برطانیہ کے فوجیوں کو محفوظ رکھا جائے۔ ایک پولش مزدور کو برطانوی ظاہر کرکے اس سے منسوب بیان میں لکھا گیا کہ برطانوی ملازمتیں صرف برطانوی لوگوں کو ملنے چاہئیں۔ اسی طرح ایک اسپین کے ڈاکٹر کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا کہ بطور برطانوی ڈاکٹر میں جانتا ہوں کہ غیر ملکیوں کے باعث ہسپتال اور صحت کے ادارے تباہ ہو رہے ہیں ان کو روکا جائے۔

چیئرمینAdam Walker
بانیJohn Tyndall
تاسیس7 اپریل 1982؛ 41 سال قبل (1982-04-07)
صدر دفترPO Box 213
Wigton
Cumbria
CA7 7AL[1]
اخبارIdentity
یوتھ ونگBNP Youth
رکنیتکم 500[2] (estimate, 2015)
نظریات
سیاسی حیثیتFar-right[14][15]
یورپی اشتراکAlliance of European National Movements[16]
ویب سائٹ
bnp.org.uk

دوہزار پانج کے مقامی انتخابات تک اس جماعت کی کسی بھی کونسل میں نمائندگی نہیں تھی مگر دوہزار پانج میں تنظیم نے لندن اور بریڈفورڈ میں نصف درجن سے کم نشستں حاصل کیں۔ 2009 کے یورپی انتخابات میں اس جماعت نے برطانیہ بھر سے تقریبا نو فیصد ووٹ حاصل کیے اور یارکشائر اینڈ ہمبر نامی حلقہ سے پہلی نشست حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی روز بی این پی کے سربراہ نک گریفن نے بھی نارتھ ویسٹ کے حلقہ سے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اپنی کامیابی کے پہلے ہی روز اس نے مسلمانوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے الزام عاید کیا کہ بریڈفورڈ میں امیگریشن نہیں بلکہ نوآبادی ہو رہی ہے۔

بی این پی نے ابتدا میں تمام غیر سفیدفام اور برطانوی افراد سے تعصب کا رویہ روا رکھا مگر بعد ازاں اس نے ہندو، سکھ اور یہودی مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مہم بندکردی بلکہ ان مزاہب کے انتہا پسند افراد سے روابط قائم کرلئے اور مسلمانوں کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قائم کیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک صحافی نے تنظیم کے ارکان کا روپ دھار کر اس تنطیم کے سربراہ کی ایک خفیہ فلم بھی بنائی تھی جس میں نک گریفن کویہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ بریڈفورڈ کی مساجد کو تباہ کردوں۔ اسی فلم میں ایک ممبر بتاتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک مسلمان دکان دار کی دکان میں کتے کی غلاظت پھیکی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس جماعت کو دانستہ طور پر خفیہ ہاتھوں نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو دبانے کے لیے قائم کیا ہے اور اس کی خفیہ سرپرستی بھی کی جاتی ہے۔ ان افراد کا خیال ہے کہ اگر اس جن کو قابو نہ کیا گیا تو یہ بوتل سے باہر آکر برطانوی معاشرے اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

تنظیم کا آن لائن

حوالہ جات ترمیم

  1. "View registration: British National Party"۔ The Electoral Commission 
  2. Doug Bolton (15 April 2015)۔ "General Election 2015: The BNP has almost vanished from British politics"۔ The Independent۔ 17 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2015 
  3. Nigel Copsey (2007)۔ "Changing course or changing clothes? Reflections on the ideological evolution of the British National Party 1999–2006"۔ Patterns of Prejudice۔ 41 (1): 61–82۔ doi:10.1080/00313220601118777 
  4. Copsey 2004
  5. Wood & Finlay 2008
  6. Alastair Bonnett (1998)۔ "How the British Working Class Became White: The Symbolic (Re)formation of Racialized Capitalism"۔ Journal of Historical Sociology۔ 11 (3): 316۔ doi:10.1111/1467-6443.00066 
  7. Les Back، Michael Keith، Azra Khan، Kalbir Shukra، John Solomos (2002)۔ "New Labour's White Heart: Politics, Multiculturalism and the Return of Assimilation"۔ The Political Quarterly۔ 73 (4): 445۔ doi:10.1111/1467-923X.00499 
  8. Phyllis B. Gerstenfeld، Diana R. Grant، Chau-Pu Chiang (2003)۔ "Hate Online: A Content Analysis of Extremist Internet Sites"۔ Analyses of Social Issues and Public Policy۔ 3: 29۔ doi:10.1111/j.1530-2415.2003.00013.x 
  9. ^ ا ب M. Golder (2003)۔ "Explaining Variation in the Success of Extreme Right Parties in Western Europe"۔ Comparative Political Studies۔ 36 (4): 432۔ doi:10.1177/0010414003251176 
  10. Jocelyn A. J. Evans (April 2005)۔ "The dynamics of social change in radical right-wing populist party support"۔ Comparative European Politics۔ 3 (1): 76–101۔ CiteSeerX 10.1.1.199.7394 ۔ doi:10.1057/palgrave.cep.6110050 
  11. Goodwin 2011, p. 7.
  12. Szczerbiak & Taggart 2008, p. 102; Woodbridge 2011, p. 107.
  13. Driver 2011, p. 132; Bottom & Copus 2011, p. 146; Copsey 2011, p. 1; Messina 2011, p. 165; Trilling 2012, p. 5.
  14. Copsey 2008, p. 1; Copsey 2011, p. 1; Goodwin 2011, p. xii.
  15. Goodwin 2011, p. 88.