بہاء الدین نقشبند

منسوب سلسلہ نقشبندیہ

خواجہ خواجگان بہاؤ الدین نقشبند بخاری (پیدائش: 30 نومبر 1327ء— وفات: 21 فروری 1390ء) مسلم صوفی سلسلہ نقشبندیہ کے بانی تھے۔ یہ سلسلہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقبول اور بڑا سلسلہ مانا جاتا ہے۔ سلسلہ مجددیہ، سلسلہ خالدیہ، سلسلہ سیفیہ اس کی مشہور شاخیں ہیں۔

بہاء الدین نقشبند
(فارسی میں: بهاء الدين النقشبند)،(عربی میں: بهاء الدين النقشبند ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1318ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قصر عارفاں ،  بخارا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1389ء (70–71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قصر عارفاں ،  بخارا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مزار خواجہ بہاء الدین نقشبند بخاری   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خانیت چغتائی   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ امیر کلال   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص علاؤالدین عطار   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

آپ کا نام محمد اور والد کا نام بھی محمد ہے۔ آپ کا تعلق سادات خاندان سے ہے۔ اسلامی تاریخی شہر بخارا سے تین میل کے فاصلہ پر قصر ہندواں نیا نام قصر عارفاں نامی قصبہ میں 14 محرم الحرام 728 ہجری میں پیدا ہوئے۔

سوانح

ترمیم

محمد بن محمد بہاؤ الدین البخاری سلسلہ نقشبندیہ کے بانی ان کا لقب شاہ نقشبند (لفظی معنی: مصور) کی تشریح علم الٰہی کی لاثانی تصویر کھینچنے والا سے کی گئی۔ یا زیادہ صوفیانہ انداز میں اپنے دل میں کمال حقیقی کا نقش رکھنے والا۔ انھیں الشاہ کا جو لقب دیا گیا ہے اس سے مراد روحانی رہبر ہے۔ نسبت الاویسی سے یہ مراد ہے کہ ان کی نسبت روحانی براہ راست حضرت سیدنا خضر علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے تھی۔[1]

 
مزار شيخ بہاؤالدين نقشبندبخارا ـ ازبكستان

آثار ولایت

ترمیم

∗ بچپن ہی سے آپ کی پیشانی پر آثار ولایت و ہدایت نمایاں تھے اور یہ کیوں نہ ہوں جبکہ آپ کی ولادت سے بھی پہلے وہاں سے گذرتے ہوئے قطب عالم محمد بابا سماسی نے فرمایا تھا کہ مجھے یہاں سے ایک مرد خدا کی خوشبو آتی ہے۔ ایک اور مرتبہ فرمایا اب وہ خوشبو زیادہ ہو گئی ہے اور جب آپ پیدا ہوئے اور دعا کے لیے آپ کے پاس لائے گئے تو انھیں اپنی فرزندی میں قبول فرمایا اور توجہات سے نوازا۔ اس طرح شاہ نقشبند کی ابتدائی روحانی تربیت بابا سماسی نے کی اور بعد میں آپ کو سید امیر کلال کے سپرد فرمایا۔

اکابر اربعہ نقشبندیہ

ترمیم

اکابر اربعہ نقشبندیہ میں ان کا شمار کیا جاتا ہے علامہ محمد مراد مکی معرب مکتوبات میں لکھتے ہیں

  1. خواجہ جہاں عبدالخالق غجدوانی
  2. خواجہ سید محمد بہاؤ الدین نقشبند بخاری
  3. خواجہ علاؤالدین عطار
  4. خواجہ عبید اللہ احرار

بعض نے ان حضرات کا شامل کیا

  1. خواجہ سید محمد بہاؤالدین نقشبند بخاری
  2. خواجہ محمد پارسا
  3. خواجہ علاؤالدین عطار
  4. خواجہ عبید اللہ احرار[2]

حصول علم باطنی

ترمیم

∗گو آپ نے ظاہری طور پر طریقت کی تعلیم و تربیت سید امیر کلال سے حاصل کی لیکن روحانی طور پر آپ کی تربیت قطب عالم عبد الخالق غجدوانی نے اویسی طریقہ پر فرمائی۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں میں اوائل احوال میں جذبات و بیقراری کے عالم میں راتوں کو اطراف بخارا میں پھرا کرتا تھا اور ہر مزار پر جاتا تھا۔ ایک رات میں تین مزارات پر گیا۔ آخر میں جس بزرگ کے مزار پر گیا وہاں حالت بے خودی میں میں نے دیکھا کہ قبلہ کی جانب سے دیوار شق ہو گئی اور ایک بڑا تخت ظاہر ہوا جس پر ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ الغرض ایک شخص نے مجھے بتایا کہ یہ عبد الخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ میں نے خواجہ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور وہ ارشادات فرمائے جو سلوک کے ابتدا اور درمیان میں و انتہا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی مکمل سلوک کی تعلیم دیدی۔ اس موقع پر تاکیدی طور پر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا استقامت سے شریعت کے شاہراہ پر چلنا۔ کبھی اس سے قدم باہر نہ نکالنا۔ عزیمت اور سنت پر عمل کرنا اور بدعت سے دور رہنا۔ اسی لیے مدت العمر آپ شریعت و سنت پر کاربند رہے اور اتباع شریعت اور رسم و بدعت سے نفرت طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی امتیازی علامات ہیں۔ نقشبندی سلسلہ آپ کی طرف منسوب ہے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تین اصطلاحات وقوف زمانی، وقوف عددی اور وقوف قلبی شاہ نقشبند قدس سرہ نے مقرر فرمائی ہیں اور آپ اویسی بھی ہیں کہ آپ کو روحانی نسب خواجہ عبد الخالق سے حاصل ہوئی۔[1]

وصال

ترمیم
 
مزار - (بخارا)

آپ کا وصال بروز پیر 3 ربیع الاول 791ھ مطابق 21 فروری 1390ء کو 73 برس کی عمر میں آبائی گاوٴں قصر عارفاں میں ہوا۔ ان کی قبر پر ایک شاندار مزار تعمیر کیا گیا اور یہ بخارا کے قابل ذکر مقامات میں شامل ہے۔ مشہور یہ ہے کہ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازہ کے سامنے یہ شعر پڑھا جائے
مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمال روئے تو
ترجمہ: میرے مولیٰ میں ایک مفلس کی حیثیت سے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں، خدارا اپنا جلوہ جہاں آرا مجھے دکھادے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 22 صفحہ 435 دانش گاہ پنجاب لاہور
  2. البینات شرح مکتوبات، محمد سعید احمد مجددی، جلد اول، صفحہ285،تنظیم الاسلام پبلیکیشنز گوجرانوالہ