بھارت میں ذات پات کا نظام ذاتوں سے باہر کی شادی کی ممانعت کرتا ہے۔[1] تاہم بین ذات شادی کا رواج بھی آہستہ آہستہ ملک میں قبول کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ تعلیم کا فروغ، ملازمت، درمیانی طبقے کا پس منظر اور شہروں کا پھیلاؤ ہے۔ 2014ء کے ایک سروے کے مطابق ملک میں 5 فی صد شادیاں مختلف ذاتوں کے بیچ انجام پائی ہیں۔

بھارت میں بین ذات شادیوں کی عوامی طور پر حوصلہ افزائی کئی سیاست دانوں نے کی ہے جن میں سی این انادورائی، سابق وزیر اعلٰی تمل ناڈو شامل تھے۔[2] اسی طرح سماجی کارکنوں نے بھی اس کی پرزور وکالت کی ہے جن میں پیریار ای وی راماسوامی،[3] رگھوپتی وینکٹارتنم نائیڈو[حوالہ درکار] اور منتھینا وینکٹاراجو[حوالہ درکار] شامل تھے۔ شمالی ہند کی ریاست اتر پر دیش میں حکومت بین ذات زوجین کو انعام دیتی ہے۔[4] بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی بین ذات شادیوں کو قومی مفاد میں قرار دیا اور ملک میں اتحاد پیدا کرنے والے عوامل میں سے ایک تسلیم کیا۔[5] قانونی طور پر بھارت میں بین ذات یا بین العقیدہ شادیوں پر کسی قسم کی روک نہیں ہے۔[6]

بھارت میں سب پہلی بین ذات شادی کا ثبوت 4 فروری 1889ء کو ملتا ہے۔ اس تاریخ کو یشونت اور رادھا (عرف لکشمی) کی شادی ہوئی تھی۔ یشونت جیوتی راؤ اور ساویتری بائی پھولے کا متبنٰی بیٹا تھا۔ رادھا گنوبا کرشناجی ساسانے کی بیٹی تھی۔ یہ شادی پہلی 'ستیہ شودھکی' (تلاش حق سوسائٹی) کی شادی تھی۔ ساویتری بائی نے اس تاریخی موقع کا سارا خرچ اپنے ذمے لیا۔ شادی کا یہ طریقہ، جو اندراج شدہ شادی کے مشابہ تھا، بھارت کے کئی حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ساویتری اور جیوتی راؤ کو کافی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر ان سے وہ مضمحل نہیں ہوئے۔ 'ستیہ شودھک ویواہ' کے لیے یہ لازم تھا کہ دولہا یہ حلف لے کہ وہ عورتوں کو تعلیم اور مساوی حقوق فراہم کرے گا۔ شادی کے موقع پر 'منگلاشٹکے' (شادی کے وقت پڑھے جانے والے منتر) دولہا اور دلہن کی جانب سے ہی ادا کیے گئے تھے، جو عام طور سے کسی پنڈت کی جانب سے ادا ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی قسمیں تھی جو دولہا دلہن ایک دوسرے کے لیے کھا رہے تھے۔ یہ طے کرنے کے لیے کہ شادی کر رہے جوڑے ایک دوسرے کی پسند ناپسند سے بخوبی واقف ہوں، ساویتری بائی نے رادھا کو پھولے گھرانے میں شادی سے پہلے رہنے کی سہولت فراہم کی۔ اس نے رادھا کی تعلیم کا بھی انتظام کیا۔ [حوالہ درکار]

بین ذات شادیاں بھارت میں ناموسی قتل کی ایک بڑی وجہ ہے۔[7] ملک میں آن لائن شادی کے پیامات کی ویب سائٹس بھی عام ہیں[8] جو یہ جوڑوں سے یہ اقرار لیتے ہیں کہ وہ اپنی ذات کے باہر بھی شادی کرنے کے لیے تیار ہیں۔[9]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Susan Bayly (2001-02-22)۔ Caste, Society and Politics in India from the Eighteenth Century to the Modern Age۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9780521798426۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2017 
  2. "Love in the time of caste"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ 2013-07-27۔ ISSN 0971-751X۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 نومبر 2015 
  3. Anita Diehl. (1977). E. V. Ramaswami Periyar. A study of the influence of a personality in contemporary South India, Scandinavian University Books: Sweden. آئی ایس بی این 91-24-27645-6.
  4. bbc.com: India: Cash reward offered for inter-caste marriages
  5. "Lawyer's Collective"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. "Infochange India"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. Satnam Singh Deol (7–16 June 2014)۔ "Honour Killings in India: A Study of the Punjab State" (PDF)۔ International Research Journal of Social Sciences 
  8. "jodilogik.com: Surprising Facts About Intercaste Marriage"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2017 
  9. thehindu.com: 'Caste no bar', in words if not in action

==بیرونی روابط==*