تائیوان میں خواتین (انگریزی: Women in Taiwan) کا موقف پدر سری خیالات سے بے حد متاثر رہا ہے۔ ان خیالات کی وجہ سے ایک عام تاثر تائیوان میں یہ رہا ہے کہ عورتوں کا قانونی موقف مردوں سے کم تر ہے۔ ان خیالات کو اکیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ساتھ کافی زک پہنچی ہے۔ کئی قوانین ایسے بنائے گئے ہیں، جن کا مقصد خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ عائلی قانون کے زمرے میں بھی کئی ترامیم بہ روئے لائے گئے ہیں۔ تائیوان پر روایتی طور پر چین اپنا دعوٰی پیش کرتا رہا ہے، تاہم ملک کا انتظامیہ عام طور سے آزادانہ حکم رانی کرتا ہے اور وہ خود کو چین کا ما تحت تصور نہیں کرتا۔ تاہم بین الاقوامی مواقع پر چین سے کسی بھی تصادم سے بچنے کے لیے تائیوان بھی ایک ذیلی چینی شناخت اختیار کرتا ہے۔ مثلًا عالمی خوب صورتی کے مقابلوں میں شریک تائیوانی لڑکی کو مِس چائینیز تائپے (Miss Chinese Taipei) کہا جاتا ہے۔

تائیوان کی پہلی خاتون صدر سائی انگ وین

خواتین کی سیاسی فعالیت

ترمیم

61 سالہ سائی انگ وین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ خود مختار مگر چین کی زیر تسلط ریاست تائیوان کی پہلی خاتون صدر بنی ہیں۔ سائی انگ وین کی پارٹی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی نے حیران کن طور پر 2016ء کے عام انتخابات میں اس وقت کی حکم ران جماعت کو شکست دی، جس کے بعد وہ ملک کی پہلی خاتون صدر بنیں۔ سائی انگ وین ریاست و حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہونے سے قبل متعدد سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں۔[1]

علاقے میں خواتین کے روز گار میں مشکلات

ترمیم

ایکسپیٹ انسائڈر برطانیہ سے باہر زندگی سے متعلق ایک جامع سروے ہے جس میں دنیا بھر میں مقیم ایک لاکھ اسی ہزار سے زائد برطانیوی شہریوں کا ڈیٹا موجود ہے۔ یہ سروے برطانیہ سے باہر رہنے والوں سے متعلق کئی مسائل کا احاطہ کرتا ہے جس میں ملازمت کی زندگی اور دنیا میں عورتوں کی نوکریوں سے متعلق بہترین اور بدترین ملک کا تعین اسی ہزار عورتوں سے بات کر کے 2019ء تعین کیا تھا۔ اس سروے کی رو سے تائیوان دنیا میں ملازمت کے لیے عورتوں کے واسطے تیسرا سب سے بد ترین ملک ہے۔ اس فہرست میں یہ تین سب سے خراب ممالک ملازمت کے اعتبار سے اس طرح ہیں:

چیک جمہوریہ

بحرین

تائیوان[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم