اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی سن 2000 میں رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کی تمام دولت کا 40% حصہ صرف ایک فی صد امیر ترین لوگوں کے قبضے میں ہے اور دنیا کے دس فی صد امیر لوگ دنیا کی 85% دولت پر قابض ہیں۔ دنیا کی آدھی آبادی دنیا کی 99 فیصد دولت کی مالک ہے جبکہ دنیا کی بقیہ آدھی آبادی دنیا کی صرف ایک فیصد دولت پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔[1][2]

دکھ کی بات یہ ہے حالات اب بھی تیزی سے امیروں کو مزید امیر بنا رہے ہیں۔[3]

امریکا کے سن 2001 کے ایک جائیزے کے مطابق ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس 38% دولت ہے اور دس فیصد لوگوں کے پاس 71% دولت ہے جبکہ 40% غریب مل کر صرف اور صرف ایک فیصد دولت کے مالک ہیں۔ غریب ملکوں کا حال اس سے بھی کہیں بد تر ہے۔ آسان الفاظ میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک دعوت میں سو مہمان ہیں اور سو روٹیاں ہیں۔ ایک امیر مہمان کو 38 روٹیاں کھانے کو ملیں جبکہ 40 غریب مہمانوں کو مل کر صرف ایک روٹی میں سے ٹکڑا ٹکڑا کھانا پڑے۔

اگر پوری دنیا کی دولت (بہ لحاظ شرح تبادلہ exchange rate) کی تقسیم دیکھی جائے تو صورت حال کچھ یوں نظر آتی ہے۔
شمالی امریکا کی آبادی 5.17% ہے اور دولت 34.39% ہے۔
یورپ کی آبادی 9.62% ہے اور دولت 29.19% ہے۔
ایشیا کی آبادی 52.18% ہے اور دولت 25.61% ہے۔
جنوبی امریکا اور وسطی امریکہ کی آبادی 8.52% ہے اور دولت 4.34% ہے۔
مشرق وسطیٰ کی آبادی 9.88% ہے اور دولت 3.13% ہے۔
بقیہ دنیا کی آبادی 3.14% ہے اور دولت 2.56% ہے۔
افریقا کی آبادی 10.66% ہے اور دولت 0.54% ہے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. The World Distribution of Household Wealth. James B. Davies, Susanna Sandstrom, Anthony Shorrocks, and Edward N. Wolff. 5 December 2006.
  2. The rich really do own the world 5 December 2006
  3. ""Wealth Inequality Charts""۔ 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جون 2009