نمل (انگریزی: National University of Modern languages) نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجزجسے "قومی جامعہ برائے جدید لسانیات" بھی کہا جاتا ہے، حکومت پاکستان کے زیر اہتمام چلنے والا ایک ادارہ ہے جہاں بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات ہونے والے سول و فوجی افسران کو وہاں کی مقامی زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔ اس ادارے کا نام اس وقت میڈیا میں زیادہ سنا گیا جب 2010 میں یہاں ہونے والے ایک تنازع کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔

نمل (قومی جامعہ برائے جدید لسانیات), اسلام آباد
قسمقومی
قیام1970 (29 مئی 2000ء کو جامعہ کا درجہ دیا گیا)
چانسلرصدر پاکستان
ریکٹربریگیڈیر (ر) عزیز خان
انڈر گریجویٹ4678
پوسٹ گریجویٹ6044
مقاماسلام آباد، پاکستان
کیمپسشہری
ویب سائٹwww.numl.edu.pk

قیام ترمیم

اس ادارے کا قیام اس سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عمل میں آيا تھا اور یہ سویلین بیورکریسی کے ماتحت ایک ڈائریکٹر کی نگرانی میں سرگرم عمل تھا۔

فوجی چھاؤں میں ترمیم

1980 میں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں عربی کے ممتاز اسکالر لئیق بابری اس ادارے کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ان کے دور میں یہاں زیرتربیت فوجی افسران اور انتظامیہ کے مابین ہونے والے ایک جھگزے کے بعد یہ دباؤ ڈالا جانے لگا کہ یہاں زیرتربیت تمام سول افسران کو کسی دوسرے ادارے میں تربیت دی جائے۔ مرحوم جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں سارا ملک " دیس میرے دی موجاں ہی موجاں، جدھر دیکھوں فوجاں ہی فوجاں " کی عملی تصویر نظر آتا تھا لہذا یہ ادارہ بھی فوجی اشرافیہ کی سرپرستی میں جانے سے محفوظ نا رہ سکا۔ نیا حکم نادر شاہی یہ جاری ہو ا کہ آئندہ اس ادارے کے انتظامی امور کا سربراہ بریگیڈئر رینک کا فوجی افسر ہوگا۔ پروفیسر لئیق بابری نے اس غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کی تو ان کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔

یونیورسٹی ترمیم

2000 میں حکومت پاکستان نے اس انسٹیوٹ کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا لہذا اس ادارے کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کہا جانے لگا۔ یہ تبدیلی اس وقت ہوئی جب پاکستان پر پرویز مشرف کی فوجی آمریت ‍ قائم تھی اس وقت بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ یونیورسٹی کا ریکٹر جنرل رینک کا افسر ہوگا۔ اس وقت کے ایک حاضر سروس بریگیڈئر عزیز احمد یہاں کے انتظامی امور کے سربراہ تھے جن کو اسٹاف کالج میں پرویز مشرف کے استاد ہونے کا شرف حاصل رہا ہے ان کی مدت ملازمت 2000 میں ختم ہوجانے کے بعد بھی ان اس یونیورسٹی کا ریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ 2007 میں جنرل مشرف نے بریگیڈئر (ر) عزیز احمد کی مدت ملازمت میں مزید چار سال کی توسیع دے دی۔

تنازعہ2010 ترمیم

2010 میں اس یونیورسٹی کے رجسٹرار عبید رانجھا اور پروفیسر نعیم کے مابین تنازع ہوا جس میں رجسٹرار کی جانب سے پروفیسر کو تھپڑ مارے جانے کے بعد یہ معاملہ میڈیا میں آگیا . رجسٹرار کے اس اقدام کی عوامی حلقوں میں شدید مذمت کی گئی اس موقع پر ریکٹر عزیز احمد نے رجسٹرار کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر معاملہ میڈیا اور پارلیمنٹ میں آجانے کے بعد ان کا سنگھاسن بھی ڈولتا محسوس ہوا لہذا انھوں نے رجسٹرار کی قربانی دینے کا فیصلہ دیا اور رجسٹرار عبید رانجھا کو مستعفی ہونا پڑا۔

پارلیمان میں ترمیم

اس واقع کی گونج پاکستان کی پارلیمان میں اس وقت سنائی دی جب قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین عابد شیر علی نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری رپورٹ طلب کرلی۔ اور قومی اسمبلی اجلاس ختم ہونے کے بعد قائمہ کمیٹی کی جانب سے اس واقعہ کا مکمل جائزہ لے کر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا۔

عزیز احمد بطور ریکٹر ترمیم

ایک سویلین تعلیمی ادارے میں حاضر سروس فوجی افسر کی تعیناتی پاکستان میں فوجی اشرافیہ کی مضبوط گرفت کی نشان دہی کرتی ہے، جس کی شاید کسی جمہوری معاشرے میں کوئی مثال نہ ملے۔ فوجی اشرافیہ کا کسی بھی سول ادارے یا منصب کو اپنے کنٹرول میں لے لینا پاکستان میں معمول کی بات ہے۔ اس کے برعکس کسی سول افسر کا کسی فوجی ادارے یا فوجی منصب پر تعینات ہو جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بریگیڈئر عزیز احمد کی یہاں تعیناتی بھی اسی پالیسی کا تسلسل تھی، موصوف ایک عشرہ سے زیادہ وقت سے یہاں تعینات ہیں۔ اس عرصے میں بعض حلقے ان پر اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے، اپنے بیج میٹ کو اکیڈمک اور انتظامی شعبوں میں بھاری مشاہروں پر یہاں ملازمتیں فراہم کرنے (جن میں ڈائریکٹر جنرل کامران جہانگیر کا نام سرفہرت ہے، جو 1999 میں یہاں کینٹین کنٹریکٹر ہوا کرتے تھے) کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

بیرونی روابط ترمیم