۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتوئی بلوچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جتوئی بلوچوں کا اہم اور مشہور قبیلہ ہے ۔ میر جلال خان کی بیٹی جتو مائی سے جتوئی کہلایا۔جو بلوچستان سندھ اور پنجاب میں آباد ہے۔ اس کے علاوہ یہ قبیلہ ایران سعودی عرب اور بھارت میں بھی آباد ہے ۔

بلوچ ہسٹری کے متعلق تحریر شدہ کتابوں کے مطابق جتوئی قبیلہ میر جلال خان کے بڑے بیٹے میر جاتن خان کی اولاد ہے۔ بعض جگہوں میں میر جاتن خان کو میر جلال خان کا بھائی مانا جاتا ہے۔ بہر حال مصدقہ تاریخ کے مطابق میر جاتن خان سے ہی جتوئی قبیلہ جانا جاتا ہے

رند دور جو 1430ءسے 1600ءتک کے عرصے پر محیط ہے۔ خوانین کا دور جس کی مدت 1600ءسے 1850ءتک ہے۔ برطانوی دور جو 1850ءسے شروع ہوا اور اگست 1947ءمیں تمام ہوا۔ بلوچوں میں رندوں کے تعارف کے متعلق ضرورت نہیں۔ کیونکہ میر جلال خان رند کی سر کرد گی میں بلوچوں کے 44 مختلف قبیلے سیستان سے مکران آئے تھے۔ اور وہاں سے وہ بلوچستان سندھ پنجاب اور گجرات میں پھیل گئے۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ میر چاکر کے زمانے تک جب تک یہ منظم رہے من حیث الکل بلوچوں کی سرداری رندوں میں رہی۔ لاشارئیوں سے تیس سالہ جنگ کے بعد اور پھر پنجاب میں دودھائیوں سے لڑائی کے بعد بلوچوں کی تنظیم منتشر ہو گئی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سرداری بھی تقسیم ہو کر رہ گئی۔ اور ہر قبیلے نے نیم خود مختارانہ حیثیت حاصل کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں قبیلے کی کمزوری کی وجہ سے رندوں کی سرداری منقسم ہو گئی۔ جب میر بجار خان جتوئی (فاتح ہندوستان) رند پنجاب میں میر چاکر سے علاحدہ ہوا اور دودائی قبیلہ سے لڑائی شروع کی تو اس نے اپنے آپ کو رندوں کا بادشاہ کہلوایا۔ میر چاکر رند اور بلو چوں کے دوسرے مشہور رہنما سب کے سب رندوں کے گروہ سے متعلق تھے۔ غرض اس طرح بلوچوں میں قبائلیت اور علیحدگی کی ابتداءہوئی۔ بلوچوں میں یہ عام دستور سا ہو گیا ہے۔ کہ ان میں سے ہر ایک قبیلہ رند ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا رند ہونے سے متعلق کوئی تعلق نہیں۔ رندوں کی شمشیر زنی کی شہرت اور اس قبیلے میں عظیم شخصیتوں اور ہستیوں کی موجودگی کی وجہ سے اس قبیلے سے اپنے آپ کو متعلق کر دینا یقیناً قابل عزت بات ہے۔ تقریاً آدھے رند پنجاب میں مقیم ہیں۔ ان کے آباو اجداد میر چاکر رند کے ساتھ وہاں گئے تھے۔ بہر حال رندوں کی ایک خاص تعداد نے میر چاکر رند سے علیدہ ہو کر میر بجار خان جتوئی کو اپنا سردار مان لیا۔ میر بجار خان جتوئی نے پنجاب میں دودائیوں کے خلاف بہت سی لڑائیاں لڑیں۔ اور اس کے بعد وہ سندھ سے ہوتا ہوا بلوچستان واپس آگیا۔ میر بجار خان نے ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد حاصل ہونے والی جاگیر میں سے ساہی وال اور ملتان کا علاقہ اپنے پاس رکھا اور باقی جاگیر میر چاکر خان کی مشاورت سے دیگر بلوچ قبائل میں تقسیم کر دیا۔ میر بجار خان نے اپنے بڑے بیٹے میر نوتک خان کو ملتان میں آباد کیا اور تمام بلوچ قبائل کا سردار مقرر کیا۔ جتوئی قبیلے کی سرداری میر نوتک خان کے بڑے بیٹے میر لوہار خان سے ہوتے ہوئے اس کی اولاد میں جاتی ہے جو مخصوص لقب لوہارات سے پہچانی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے اس کی اولاد کا مسکن ہے۔ اور میروالہ بندرگاہ انہی کی ملکیت ہے۔

اس کے ساتھ جو قبیلے واپس بلوچستان چلے گے تھے ان میں چھلگری چولانی دیناری مورانی اور روانی قبائل تھے اس کے بہت سے پیروکار اور ساتھیوں نے ڈیرہ غازیخان سندھ اور بلوچستان میں سکونت اختیار کرلی اور اپنے آپ کو مختلف ناموں سے موسوم کیا۔ رند کی قبیلہ کی ایک مشہور شاخ چنگوانی جو چوٹی زیریں میں آباد ہوئی اب بھی ان کی بہادری اور شجاعت دیدنی اور مثالی تصور کی جاتی ہے ایک کے سرداروں میں نمایاں مقام جناب سردار نوتک خان چنگوانی جس کے نام سے نوتک مہمید رکھا گیا لیکن وہ ہمیشہ اپنے رند ہونے پر فخر کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہیں کوہ سلیمان کے مغربی اور مشرقی جانب آباد قبائل میر شہک خان رند کے دور سے پہلے آباد تھے۔ ان میں بگٹی لاشاری رند اور اس کی ذیلی شاخیں شامل ہیں۔ میر چاکر خان رند کی تیس سالہ جنگ جو لاشاریوں کے ساتھ لڑی گئی تھی انتشار کا باعث بنی۔ مزید براں آمدپنجاب میں دودائیوں اور غیر بلوچ اقوام کے ساتھ جنگ نے بلوچوں کے بڑے 44 قبائل کی تنظیم کو منتشر کر دیا تھا۔ میر چاکر خان رند جب پنجاب پر راج کرنے آیا تو جو رندوں کے مشہور پاڑے مختلف امور کی انجام دھی کے لیے ساتھ آئے تھے ان میں سرفہرست رند۔ جتوئی۔مندوانی۔ دستی۔گورچانی۔ اندرا۔ دریشک۔ لنڈ۔ بزدار۔ لغاری۔ نتکانی۔ احمدانی۔چنگوانی۔ میرانی۔ چاکرانی۔گبول۔گدائی۔ عالیانی۔ روانی۔ رمدانی۔ میروانی(جتوئی)۔گورمانی۔ برمانی۔ قیصرانی۔ مزاری۔ کچھیلا۔ غزلانی۔ پتافی۔ شر۔گوپانگ ۔ ناھر۔ وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ رندوں کا ایک قبیلہ روانی بعد ازاں میر چاکر خان رند اور میر بجار خان جتوئی رند کی اندرونی لڑائی میں دوسرے بہت سے پاڑوں کی طرح تقسیم ھو گیا تھا۔1555 میں میر بجار خان جتوئی نے میر چاکر خان کے کہنے پر ھندوستان پر حملہ کیا شیر شاہ سوری سے جنگ کر کے مغلیہ سلطنت کے نامور بادشاہ ھمایوں کو چھینی ہوئی سلطنت واپس دلائی جس پر ھمایوں نے تقریبا" آج کے پاکستان کا آدھا حصہ پر محیط علاقے ان کو تحفے میں دے دیا اور بلوچوں سے مضبوط دوستی قائم کر کے مغلیہ سلطنت کو تقویت دے دی۔ بعد ازاں میر چاکر خان نے اپنے بیٹوں کے لیے ستگھرہ میں محل تعمیر کرا دیے جس پر میر بجار خان ناراض ہو گیا یہ ناراضی اتنی طول پکڑ گئی کہ میر چاکر خان کی بیٹی نے میر نوتک خان کے ساتھ اوکاڑہ کو چھوڑ کر ملتان کے نواح میں آباد ھو گئی میر چاکر خان کو اپنے نواسے میر لوہار خان سے اس قدر محبت تھی کہ اس کی جدائی نے میر چاکر خان کے لیے زندگی بھر کا روگ لگا دیا۔ میر لوہار خان بچپن میں ایک فولادی جسم اور طاقتور جنگجو بن گیا تھا وہ لوہے کو ہاتھ سے توڑ اور مروڑ سکتا تھا اور تیر اور تلوار اس کے جسم پر اثر نہیں کرتے تھے آج بھی میر لوہار خان کی اولاد لوہارات کہلاتی ہے اور جنگ و جدل انکا مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ میر لوہار خان نے کئی اہم جنگیں اپنے دادا میر بجار خان کی سرپرستی میں بھی لڑیں۔ میر چاکر خان اور میر بجار خان نے اپنی اپنی فوجیں الگ کر لی۔جس سے میر چاکر خان کا فتوحات کا سلسلہ رک گیا جبکہ میر بجار خان نے اپنا جنگی سلسلہ جاری رکھا۔ میر بجار خان جتوئی نے نے اپنے بڑے بیٹے میر نوتک خان کو جتوئی علاقہ نخلستان موجودہ نام ضلع مظفر گڑھ دوسرے بیٹے شھلک خان کو ساہی وال اور چھوٹے بیٹے میر ابراہیم خان یا میر نوحق کو سندھ میں آباد کیا اور اپنے سب سے تیسرے بیٹے میر شاہ عفان خان کو اپنے ساتھ بلوچستان لے گیا۔ ایک گروہ 1610ء تک میر بجار خان جتوئی کے ساتھ اندرون سندھ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنی عملداری قائم کرتا ھوا واپس مکران واپس چلا گیاتھا۔ جبکہ دوسرا گروہ میر چاکر خان رند کے ساتھ اپر پنجاب تک گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میروانی قبیلہ پنجاب اور بلوچستان میں بکھر کر رہے گیا ہے۔ کچھ ضلع خانیوال اور ضلع ملتان اور کچھ ضلع راجن پور میں آباد ہیں۔ ضلع راجن پور میں 1610ء میں یہ قبیلہ اپنے دیگر ساتھی قبائل کے ساتھ کوہ سلیمان کے دامن میں آباد ھوا تھا۔ پھر حصول روزگار کے لیے قدیمی قصبہ نواں شہر 1750ء میں سردار اللہ وسایا خان روانی بلوچ اور اس بیٹے سردار اللہ دھایا خان روانی بلوچ نے ایک قطعہ خرید کیا اور یہی آباد ھو گے تھے سردار اللہ ودھایا خان روانی بلوچ کے تین فرزند رسول بخش خان۔ عبد الرحمان خان۔ اور حسین بخش خان تھے۔ سردار اللہ ودھایا خان کا دوسرا بیٹا عبد الرحمن خان کو پڑھائی کے شوق نے قصبہ نواں شہر سے دیوبند (حالیہ بھارت) پہنچا دیا۔ 1913ء میں ملتان پھر لاہور اور پھر ایک قافلہ کے ساتھ دھلی اور پھر مدرسہ دیوبند میں اپنی دینی دنیاوی اور خاص کر طب کی تعلیم حاصل کی۔ واپس آکر راجن پور شہر میں آباد ھوکر مشہور و معاروف حاذق الحکیم حکیم عبد الرحمن خان رحمانی اپنے نام کی نسبت سے رحمانی کے لقب سے تادم مرگ عوام کی خدمت کرتے رہے۔ حکیم صاحب راجنپور کی وہ واحد شخصیت تھے جنھوں نے طب جراحی اور اخبار بینی کو متعارف کرایا تھا۔ آج بھی یہی بلوچ خاندان اپنے نسبتی لقب "رحمانی" کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ حکیم بشیر احمد خان رحمانی، حکیم سعید احمد خان رحمانی حکیم روف احمد خان رحمانی ڈاکٹر گلزار احمد خان رحمانی۔ ڈاکٹر انعام الحق خان رحمانی۔ ڈاکٹر خرم گلزار خان رحمانی۔ ڈاکٹر طلحہ گوھر خان رحمانی۔ اح سان الحق خان رحمانی روانی بلوچ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نزیر احمد خان رحمانی خالد منظور خان رحمانی ایسی قبیلہ روانی کے چشم و چراغ ہیں

سردار کوڑا خان جتوئی۔۔۔۔۔۔۔

بلوچ قوم کی عظیم شخصیت کوڑا خان کا تعلق مظفرگڑھ سے تھا۔ وہ عظیم جنگجو اور فاتح ہندوستان میر بجار خان کی اولاد میں سے ہے۔ فاتحاتح ھندوستان میر بجار خان نے کم و 1555میں ھندوستان کو فتح کر کے سلطنت نصیرالدین محمد ھمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کے بیٹے اور جلال الدین محمد اکبر کے والد کو واپس دلائی جس پر بادشاہ ھمایوں دہلی پنجاب نے ساھیوال چیچہ وطنی جھنگ اور ملتان کی ملکیت میر بجارخان کو عطا کر دی۔ میر بجار خان نے ساہی وال اور ملتکی کا علاقہ اپنے پاس رکھا باقی علاقے میر چاکر خان کی مشاورت سے باقی بلوچ قبیلوں میں تقسیم کر دیا۔ میر بجار خان نے اپنے بڑے بیٹے میر نوتک خان کو ملتان مظفرگڑھ میں آباد کیا۔اور میر نوتک خان(تمام جتوئی قبائل کا سردار) نے اپنے بڑے بیٹے میر لوہار خان (تمام جتوئی قبائل کا سردار اور اس کی اولاد لوہارات کہلاتی ہے۔ بلوچی قاعدے کے مطابق صرف لوہارات ہی اصل سردار فیملی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جتوئی ایک مخصوص علاقے یا حدود تک کے سردار کہلاتے ہیں ) کو سردار مقرر کر دیا۔ تقریبا"200 سال قبل رنجیت سنگھ کی شیر شاہ کے مقام پر شکست کے بعد انگریزوں نے طاقت ور قبیلے جتوئی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور آس پاس کی جاگیرتحفتا" دینے کی پیش کش کی مگر اس وقت کے جتوئی سردار اور جنگجو میر بلوچ خان(لوہارات) نے انگریزوں کی پیش کش کو ٹھکرا دیا جس پر انگریزوں نے عوام کی فلاح و بہبود۔ امن اور علاقے کی ترقی کے لیے اپنے نظام کو بڑھانے کے لیے تعاون کی درخواست جس کو قبول کرتے ھوئے میر بلوچ خان جتوئی نے اپنی جاگیر چار لاکھ کنال اراضی کے انتظام وانصرام کے لیے بھانجے اور داماد کوڑے خان کو علاقائی سردار مقرر کر دیا جبکہ میر ہیبت خان لوہارات مرحوم فاتح ملتان(لنگاہوں سے ملتان کو فتح کر کے شاہ پور یا شاہ گڑھ میں نیا شہر آباد کیا۔ قلعے کے ساتھ منسلک جائداد اسی قبیلے کے اعزاز میں دے دی گئی اور قلعہ کا دروازہ لوہاری گیٹ کا نام بھی ان کے نام منسوب کیا گیا) کے بڑے بیٹے اور اپنے بڑے بھائی میر رحیم خان کے اکلوتے بیٹے اور سپہ سالار میر مزار خان لوہارات جتوئی کو شاہ پور ملتان اور ڈیرہ غازیخان راجن پور اور خانپورسمیت تمام بلوچوں کے علاقوں اور دریائی گذرگاہوں کا انتظام اور جنگی حکمت عملی کی باگ ڈور کے ساتھ تمام قبائل کی سرداری سنبھال دی۔ اور انگریزوں نے پورے علاقے کی عملداری(مجسٹریٹی) اور قانون کی مہر کوڑے خان کے سپرد کر دی اور مظفر گڑھ کو ضلع کا درجہ بھی دیدیا گیا۔ ضلع کا انتظام و انصرام سنبھالنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے میر بلوچ خان نے لیہ اور مظفر گڑھ میں ایک لاکھ کنال رقبہ ضلع مظفر گڑھ کی سرکاری ملکیت میں منتقل کر دی اور ملتان ڈیرہ غازیخان راجن پور اور رحیم یار خان کی کثیر جائداد ان اضلاع کے انتظام چلانے کے لیے بھی وقف کر دی جو آج پنجاب حکومت کی ملکیت ہے۔ (انگریزوں کی تاریخ میں بلوچ اقوام کی تاریخ میں درج ہے کہ جتوئی قبیلہ سخاوت اور نیک نامی میں سب سے آگے ہے)۔ کوڑا خان لاولد تھا جبکہ میر مزار خان کے بعد لوہارات کی سرداری میر عبد اللہ خان جتوئی لوہارات کو ملی۔ جتوئی لوہارات کا شجرہ نسب ریوینیو ریکارڈ میں درج ہے۔جتوئی قبیلے کے لوگ لوہارات خاندان کی لڑی سے اپنے شجرہ نسب کی تصدیق اور تحقیق کرتے ہیں۔ جودور حاضر تک محفوظ اور قابل عمل و تصدیق ہے۔ سردار کوڑے خان نے اپنی ذاتی آمدنی سے سرکاری عمارتیں سرائے سڑکیں اور مساجد تعمیر کرائیں اور دریا چناب پر لوھے کا پل تعمیر کرایا اور میر بلوچ خان کے معاہدے مطابق انگریزوں سے کاروبار اور آمدو رفت کے لیے ریلوے لائینیں سڑکیں اور آبپاشی کے لیے نہری نظام کا کام مکمل کرایا۔

بعد ازاں اپنی زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے اپنی زیراستعمال جائداد کا 1/3 حصہ رفاہ عامہ کو وقف کر دیا جبکہ باقی 2/6 حصہ اپنی چھ منکوحہ کے نام منتقل کر دیا۔سردارکوڑا خان ایک خدا ترس انسان تھے۔ انھوں نے اپی جائداد میں سے ایک تہائی 97,474 کنال ارارفاہفاد عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دی۔

جس کا انتظام اور دیکھ بھال سردار کوڑے خان لینڈ پرپرٹی ٹرسٹ کرتا ہے

یہ وسیب کے ایک عظیم ہیرو تھے

ان کی خدمات کو نا صرف مسلمانوں نے بلکہ انگریزوں نے بھی مانا انگریزوں نے ان کو نواب اور محسن مظفرگڑھ کے القاب سے بھی نوازا۔ان کے آبا و اجداد اور انھوں

انھوں نے جو وسیب کی مالی اور معاشی طور پراور تحفظ خدمت کی ہے۔

تاریخ میں آج تک کسی اور مسلمان حکمران نے نہ کی ہو گی۔ تمام بلوچ قبائل آج بھی جتوئی قبیلے کی سخاوت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

ہمیں اس دھرتی کی عظیم ہستی نواب سردار کوڑے خان پر فخر ہے۔ وہ ایک خدا ترس انسان تھے۔ انھوں نے اپنی 97,474 کنال اراضی مفاد عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دی۔ اس اراضی کا انتظام سردار کوڑے خان لینڈ ٹرسٹ کرتا ہے۔