جعفر ابن ابی طالب جعفر طیار کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تو آپ مہاجرین کے قائد تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر ادب کا شہ پارہ اور اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اسی جنگ میں شہادت پائی اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طیار ’’تیز اڑنے والا، جنت کی طرف‘‘ کا لقب مرحمت فرمایا۔

جعفر ابن ابی طالب
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 589ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 629ء (39–40 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موتہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ اسماء بنت عمیس  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبداللہ بن جعفر،  محمد بن جعفر،  عون بن جعفر  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابو طالب  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ فاطمہ بنت اسد  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ موتہ  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


نام و نسب ترمیم

جعفر نام، ابو عبد اللہ کنیت، والد کا نام عبدالمناف (ابوطالب) اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا، شجرہ نسب یہ ہے۔ جعفر بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم مبن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القرشی الہاشمی۔ آنحضرت کے ابن عم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کے سگے بھائی تھے،اور عمر میں ان سے تقریبا دس سال بڑے تھے۔

اسلام ترمیم

آنحضرت ایک روز حضرت علی ؓ کے ساتھ مشغول عبادت تھے،خاندان ہاشم کے سردار ابوطالب نے اپنے دوعزیزوں کو بارگاہ صمدیت میں سربسجود دیکھا تو دل پرخاص اثرہوا، اپنے صاحبزادہ حضرت جعفر ؓ کی طرف دیکھ کر کہا، جعفر ؓ تم بھی اپنے ابن عم کے پہلو میں کھڑے ہوجاؤ، حضرت جعفر ؓ نے بائیں طرف کھڑے ہوکر نماز ادا کی،ان کو خدائے لایزال کی عبادت وپرستش میں ایسا مزہ ملا کہ وہ بہت جلد یعنی آنحضرت کے زید بن ارقم ؓ کے گھر میں پناہ گزین ہونے کے قبل ہمیشہ کے لیے اس کے پرستاروں میں داخل ہو گئے ،اس وقت تک اکتیس بتیس(31-32) آدمی اس سعادت سے مشرف ہوئے تھے۔

ہجرت حبش ترمیم

مشرکینِ مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر جب مسلمانوں کی جماعت نے حبش کی راہ لی تو حضرت جعفرؓ بھی اس کے ساتھ ہو گئے؛ لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا، نجاشی کے دربار میں مکہ سے گراں قدرتحائف کے ساتھ ایک وفد آیا اوراس نے درباری پادریوں کوتائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے درخواست کی کہ"ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہوکر حضور کے قلمرو ے حکومت میں چلے آئے ہیں، انھوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بزرگوں اور رشتہ داروں نے بھیجا ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں،درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی، نجاشی نے مسلمانوں سے بلا کر پوچھا کہ وہ کون سانیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا خاندانی مذہب چھوڑدیا؟

حضرت جعفر ؓ کی دربارِ حبش میں اسلام پر تقریر ترمیم

مسلمانوں نے نجاشی سے گفتگو کے لیے اپنی طرف سے حضرت جعفر ؓ کو منتخب کیا،انھوں نے اس طرح تقریر کی

بادشاہ سلامت! ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ستاتے تھے، طاقتور کمزوروں کو کھا جاتا تھا، غرض! ہم اسی بد بختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت، راستی، دیانت داری اور پاکبازی سے اچھی طرح آگاہ تھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی، راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اور رشتہ داروں سے محبت کا سبق ہم کو سکھایا اور ہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں، بدکاری اور فریب سے باز آئیں،یتیم کا مال نہ کھائیں،شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں،بت پرستی چھوڑ دیں،ایک خدا پر ایمان لائیں،نماز پر پڑھیں، روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں،ہم اس پر ایمان لائے اور اس کی تعلیم پر چلے ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ایک خدا کی پرستش کی،اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی اور جاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔

نجاشی نے کہا تمھارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ ، حضرت جعفر ؓ نے سورۂ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی اس نے کہا خدا کی قسم ! یہ اور تورات ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اور قریش کے سفیروں سے مخاطب ہوکر کہا واللہ! میں ان کو کبھی واپس جانے نہ دوں گا۔

سفرائے قریش نے ایک دفعہ پھر کوشش کی اور دوسرے روز دربار میں باریاب ہو کر عرض کیا حضور! آپ کچھ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کے متعلق ان لوگوں کا کیا خیال ہے ، نجاشی نے جواب دینے کے لیے مسلمانوں کو بلایا ، ان لوگوں کو سخت تردد تھا کہ کیا جواب دیں حضرت جعفر ؓ نے کہا کچھ بھی ہو، خدا اور رسول نے جو کچھ بتایا ہے ہم اس سے انحراف نہیں کریں گے،غرض دربار میں پہنچا تو نجاشی نے پوچھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت تمھارا کیا اعتقاد ہے؟" حضرت جعفر ؓ نے کہا واللہ جو کچھ تم نے کہا عیسی بن مریم اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں، یہ سن کر دربار کے پادری جو ابن اللہ کا عقیدہ رکھتے تھے، نہایت برہم ہوئے ،نتھنوں سے خرخراہٹ کی آوازیں آنے لگیں ، لیکن نجاشی نے کچھ پروا نہ کی اور قریش کی سفارت ناکام واپس آئی۔ [3]

حبش سے مدینہ ترمیم

حضرت جعفر ؓ آنحضرت کے مدینہ کی ہجرت کے چھ سال بعد تک حبشہ ہی میں رہے، میں وہ حبش سے مدینہ آئے،یہ وہ زمانہ تھا کہ خیبر فتح ہو گیا تھا اور مسلمان اس کی خوشی منا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دور افتادہ بھائیوں کہ واپسی کی دوہری خوشی حاصل ہوئی، حضرت جعفر ؓ سامنے آئے تو آنحضرت نے ان کو گلے سے لگایا اور پیشانی چوم کر فرمایا، میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا خیبر کی فتح سے۔ [4] حضرت جعفر ؓ کی واپسی کو ابھی ایک سال بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ ان کے امتحان کا وقت آگیا۔

غزوۂ موتہ ترمیم

جمادی الاولیٰ میں موتہ پر فوج کشی ہوئی، آنحضرت نے فوج کا علم حضرت زید بن حارثہ ؓ کو عطا کر کے فرمایا کہ"اگر زید شہیدہوں تو جعفر ؓ اوراگر جعفر ؓ بھی شہید ہوں تو عبدﷲ بن رواحہ ؓ،اس جماعت کے امیر ہوں گے،[5]چونکہ حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب اپنے مخصوص تعلقات کی بنا پر متوقع تھے کہ شرفِ امارت ان ہی کو حاصل ہوگا، اس لیے انھوں نے کھڑے ہوکر عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرا کبھی یہ خیال نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ ؓ کو مجھ پر امیر بنائیں گے،ارشاد ہوا اس کو جانے دو تم نہیں جان سکتے کہ بہتری کس میں ہے،[6] آنحضرت اس غزوۂ کے انجام و نتیجہ سے آگاہ تھے،اس لیے فرمایا کہ اگر زید ؓ شہید ہوں تو جعفر علم سنبھالیں،اگر وہ بھی شہید ہوں تو عبد ﷲ بن رواحہ ان کی جگہ لیں۔ [7]

شہادت ترمیم

موتہ پہنچ کر معرکہ کار زار گرم ہوا ، تین ہزار غازیان دین کے مقابلہ میں غنیم کا ایک لاکھ ٹڈی دل لشکر تھا،امیر فوجِ حضرت زید ؓ شہید ہوئے تو حضرت جعفر ؓ گھوڑے سے کود پڑے اور علم کو سنبھال کر غنیم کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے دشمنوں کا ہر طرف سے نرغہ تھا،تیغ وتبر، تیروسنان کی بارش ہورہی تھی یہاں تک کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا، دونوں ہاتھ بھی یکے بعد دیگرے شہید ہوئے مگر اس جانباز نے اس حالت میں بھی توحید کے جھنڈے کو سرنگوں ہونے نہ دیا،[8]بالآخر شہید ہوکر گرے تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے اور ان کے بعد حضرت خالد سیف اللہ نے علم ہاتھ میں لیا اور مسلمانوں کو بچا لائے۔ [9]

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اس جنگ میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے جعفر ؓ کی لاش کو تلاش کر کے دیکھا تو صرف سامنے کی طرف بچاس زخم تھے، تمام بدن کے زخموں کا شمار تو نوے سے بھی متجاوز تھا،[10] لیکن ان میں سے کوئی زخم پشت پر نہ تھا۔ [11]

رسول اللہ ﷺ کا حزن و ملال ترمیم

میدانِ جنگ میں جو کچھ ہورہا تھا،خدا کے حکم سے آنحضرت کے سامنے تھے، چنانچہ آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ نے حضرت جعفر ؓ وغیرہ کی شہادت کا حال بیان فرما دیا ، اس وقت آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور روئے انور پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے۔ [12] حضرت جعفر ؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی،اور لڑکوں کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنارہی تھی کہ آنحضرت تشریف لائے اور فرمایا جعفر ؓ کے بچوں کو لاؤ، میں نے ان کو حاضر خدمت کیا، تو آپ نے آبدیدہ ہوکر ان کو پیار فرمایا، میں نے کہا میرے ماں باپ فدا ہوں، حضور آبدیدہ کیوں ہیں کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، فرمایا ہاں! شہید ہو گئے،یہ سن کر میں چیخنے چلانے لگی، محلہ کی عورتیں میرے ارد گرد جمع ہو گئیں، آنحضرت واپس تشریف لے گئے ،اور ازواج مطہرات ؓ سے فرمایا کہ آلِ جعفر ؓ کا خیال رکھنا،آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔ [13] سیدہ جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو بھی اپنے عم محترم کی مفارقت کا شاید غم تھا، شہادت کی خبر سن کر بادیدہ ترواعماہ! واعماہ! کہتے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئیں،آنحضرت نے فرمایا، بے شک ! جعفر ؓ جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہیے، آپ کو عرصہ تک شدید غم رہا،یہاں تک کہ روح الامین نے یہ بشارت دی کہ"خدا نے جعفر ؓ کو دو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلہ میں دو نئے بازو عنایت کیے ہیں، جن سے وہ ملائکہ جنت کے ساتھ مصروفِ پرواز رہتے ہیں۔ [14]

فضائل و محاسن ترمیم

حضرت جعفر ؓ کشادہ دست و فیاض تھے، غرباء ومساکین کو کھانا کھلانے میں ان کو خاص لطف حاصل ہوتا تھا، آنحضرت ان کو ابوالمساکین کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے، حضرت ابوہرہرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں اکثر بھوک کے باعث پیٹ کو کنکروں سے دبائے رکھتا تھا اور آیت یاد بھی رہتی تو اس کو لوگوں سے پوچھتا پھرتا کہ شاید کوئی مجھ کو اپنے گھر لے جائے اورکچھ کھلائے، لیکن میں نے جعفر ؓ کو مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر پایا، وہ ہم لوگوں (اصحاب صفہ) کو اپنے گھر لے جاتے تھے، اورجو کچھ ہوتا تھا، سامنے لاکر رکھ دیتے تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات گھی یا شہد کا خال مشکیزہ تک لادیتے اور اس کو پھاڑ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے اور ہم اس کو چاٹ لیتے تھے۔ [15]

حضرت جعفر ؓ کے فضائل ومناقب کا پایہ نہایت بلند تھا،خود آنحضرت ان سے فرمایا کرتے تھے کہ"جعفر ؓ!تم میری صورت وسیرت دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو،[16]آنحضرت فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سے پہلے جس قدر نبی گذرے ہیں ان کو صرف سات رفیق دیے گئے تھے، لیکن میرے رفقائے خاص کی تعداد چودہ ہے، ان میں سے ایک جعفر ؓ بھی ہیں،[17] حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ"رسول اللہ کے بعد جعفر ؓ سب سے افضل ہیں،[18] حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ان کے صاحبزادہ کو سلام کرتے تو کہتے، السلام علیک یا ابن ذی الجناحین،[19] حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں حضرت علی ؓ سے کچھ مانگتا تو وہ انکار کر دیتے ،لیکن جب اپنے والد جعفر ؓ کا واسطہ دیتا تو بغیر کچھ دیے نہ رہتے ۔

اولاد ترمیم

جعفر نے ایک ہی شادی کی تھی آپ کی بیوی اسماء بنت عمیس تھیں جو کثیر الاولاد تھیں تین بیٹے زیادہ مشہور ہیں۔

ان کی اولاد میں سے صرف عبد اللہ سے نسل چلی۔

جعفر کی کل اولاد مندرجہ ذیل تھی جو قدیم کتابوں میں مذکور ہے۔

  • حمید بن جعفر ابن ابی طالب جو ہجرت سے 12 سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے تھے، لیکن بچپن ہی میں فوت ہو گئے۔ [20][21]
  • حمزہ بن جعفر ابن ابی طالب، حمزہ بظاہر سال 10 قبل از ہجرت میں مکہ میں پیدا ہوئے، وہ بھی بچپن میں وفات پا گئے اور اس سے بھی اولاد جاری نہیں رہی۔ [22][23]
  • عبد اللہ الاکبر ابن جعفر ابن ابی طالب، ہجرت کے پہلے سال حبشہ میں پیدا ہوئے۔ وہ حبشہ کی سر زمین میں پیدا ہونے والے پہلے مسلمان تھے اور اپنے والد کے ہمراہ 24 محرم 8 ہجری کو مدینہ آئے۔ [24][25]
  • محمد اکبر ابن جعفر ابن ابی طالب، جو 2 ہجری میں حبشہ میں پیدا ہوا، ام کلثوم بنت علی سے شادی کی اور 37 ہجری میں جنگ صفین میں شہید ہوئے۔[26][27]
  • عون بن جعفر ابن ابی طالب جو 3 ہجری میں حبشہ میں پیدا ہوئے، انھوں نے اپنے بھائی کی وفات کے بعد ان کی بیوہ ام کلثوم سے شادی کی اور 61 ہجری میں کربلا کے واقعے میں شہید ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے شہرشوشتر میں شہید ہوئے۔ ان سے بھی کوئی نسل نہیں چلی۔ [28][29]
  • محمد اصغر بن جعفر ابن ابی طالب جو 4 ہجری میں حبشہ میں پیدا ہوئے، 56ھ کی عمر میں 61ھ میں کربلا کے واقعے میں شہید ہوئے۔ [30]
  • عبد اللہ الاوسط بن جعفر ابن ابی طالب جو 5 ہجری میں حبشہ میں پیدا ہوئے بچپن میں وفات ہوئی۔ [31][32]
  • عبد اللہ الاصغر ابن جعفر ابن ابی طالب۔ وہ 6 ہجری میں حبشہ میں پیدا ہوا، اس کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔[33][34]
  • حسین ابن جعفر ابن ابی طالب جو 8 ہجری میں پیدا ہوئے، اس کی کوئی نسل نہیں ہے۔ وہ جعفر اور اسماء کے مدینہ واپس آنے کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ [35]
  • احمد بن جعفر ابن ابی طالب، ان کا عراق میں ایک مزار ہے۔ [36][37]

نعمی بنت جعفر ابن ابی طالب۔[38] ام القاسم بنت جعفر ابن ابی طالب۔[39]

حوالہ جات ترمیم

  1. عنوان : Джафар ибн Абу Талиб
  2. عنوان : Джафар ибн Абу Талиб
  3. (مسند احمد :1/201 تا 203)
  4. (طبقات ابن سعد ،جلد 4 قسم اول صفحہ 123 مختصراً بخاری ذکر غزوۂ خیبر میں ہے)
  5. (بخاری کتاب لالمغازی باب غزوۂ موتہ)
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول :3/ 32)
  7. (طبقات ابن سعد حصہِ مغازی غزوۂ موتہ)
  8. (اسدالغابہ:1/288)
  9. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی،12منہ)
  10. (بخاری باب غزوۂ موتہ)
  11. (بخاری باب غزوۂ موتہ)
  12. (اسد الغابہ:1/ 288)
  13. (مستدرک حاکم :3/209)
  14. (مستدرک حاکم :3/209)
  15. (صحیح بخاری مناقب حضرت جعفر ؓ)
  16. (صحیح بخاری مناقب حضرت جعفر ؓ)
  17. (جامع ترمذی مناقب اہل بیت)
  18. (جامع ترمذی مناقب حضرت جعفر ؓ)
  19. (صحیح بخاری غزوۂ موتہ)
  20. عمدة الطالب - ابن عنبہ صفحہ 36
  21. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  22. ابن فندق البیهقی، لباب الانساب والالقاب والاعقاب]، صفحہ 361، تحقیق: مهدی رجائی، مكتبہ آیة اللہ المرعشی، قم، 1385 ہجری شمسی
  23. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  24. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 142
  25. اسد الغابة، ج 3 ص 199 اور ص 200
  26. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  27. اسد الغابة، ج 5 ص 78
  28. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  29. اسد الغابة، ج 4 ص 302
  30. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  31. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  32. عمدة الطالب - ابن عنبہ صفحہ 37
  33. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  34. عمدة الطالب - ابن عنبہ صفحہ 37
  35. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 73
  36. معجم انصار الحسین - الهاشمیون - جزء اول: دائرة المعارف الحسینیہ، ص 141
  37. الاصابہ - ابن حجر - ج 1 - صفحہ 325
  38. اسد الغابة، ج 7 ص 271
  39. صرف بغوی نے نقل کیا ہے۔

بیرونی روابط ترمیم