جھمٹ قوم پاکستان کی ایک بہت بڑی قوم ہے۔ اس قوم سے تعلق رکھنے والے تمام افراد یعنی مرد و خواتین پڑھے لکھے اور اور تمام اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ اس قوم کا سردار بلوچستان کے ضلع کچھی بولان کی تحصیل بھاگ ناڑی میں میر رسول بخش جھمٹ ہے۔ جو ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے چکا ہے۔ اور اس اعلیٰ تعلیم یافتہ قوم کے زیادہ تعداد بلوچستان میں بھاگ ناڑی میں رہتے ہین اور بھاگ ناڑی کے جھمٹ لوگ جھمٹ قوم کے سردار ہیں۔ جب کہ آج بھی اس قوم کے زیادہ تر نوجوان سرکا ری عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ قوم پورے پاکستان میں ہھیلی ہوئی ہے۔اب زاھدافضل جھمٹ صاحب ڈیرہ جھمٹ دھوریہ کھاریاں سے تمام جھمٹ فیملی کو اکھٹا کر رہے ہیں انھوں نے آل پاکستان جھمٹ ویلفیر ایسوسی ایشن رجسڑڈ کروای ہے تا کہ جھمٹ فیملی کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا جاے



اس مضمون کو مزید توجہ کی ضرورت ہے

  • اگر دوسرے وکیپیڈیا پر اس عنوان کا مضمون موجود ہے تو اس صفحے کا ربط دوسری زبان کے وکی سے لگانے کی ضرورت ہے۔
  • اگر بڑے پیراگراف موجود ہیں تو ان کو مناسب سرخیوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔
  • اس صفحے میں مناسب زمرہ بندی کی ضرورت ہے۔بہتر ہے کہ اگر اس صفحے کا انگریزی صفحہ موجود ہے تو اس کے زمرہ جات نقل و چسپاں کر دئیے جائیں۔

اس کے بعد اس سانچہ کو ہٹا دیا جائے۔

Shajra nasab Jhamat Raajpoot شجرہ نسب جھمٹ راجپوت

یہ تحریرمیرے تایا کی ہے جنھوں نے بعد از تحقیق ان معلومات کو جمع کیا۔ میں ان کی اس کاوش کو کم و بیش انہی الفاظ میں آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ اسے جھمٹ قوم کی موجودہ تاریخ سمجھیے .
شجرہ جھمٹ راجپوت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دو قرن سے زائد عرصہ پر محیط موجودہ نسل خود کو ضابطہ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جب بھی کوئی گم گشتہ عزیز راقم سے رشتہ کا تسلسل گانٹھتا تو پھٹی آنکھوں سے ما سوائے یقین کرنے کچھ بن نہ پڑتا۔ اس ضرورت نے اس خلش کو جنم دیا کہ شجرہ نسب کی طرف رجوع کروں، مگر ماسوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ تقریبا 30 سال قبل بزرگان برادری کا اکٹھ دیکھ کر ان کے سینہ گزٹ کو قرطاص ابیض پہ منعکس کرنے کی سعی ناکام کی ہے، تا کہ موجودہ نسل اور آیندہ نسل رشتہ کی حقیقت کو بھانپ سکیں۔ نسل انسانی فکرمعاش میں جب پنجاب میں منتشر ہوئی تو گجی مار کے دو ڈاکو میر گل و طو ر زمان ساندل بار میں آن آباد ہوئے اور پھولے پھلے، یہ ذات کے راجپوت تھے۔ جب ساندل بار میں اسلام کی روح پھیلی تو راجپوتوں نے مسلمان ہونا شروع کیا۔ ان کی بہت سی گوٹھیں تھیں جن میں ایک قبیلہ جھمٹ بھی تھا، جو مسلمان ہو گیا۔ راجپوتوں کے قبیلہ کے سردار نے ایک مقامی عورت "کھوکھرا "سے شادی کی اس سے پیدا نسل کھوکھر کہلا‎ئی۔ جو کھچی کے کنارے پھیلے دور تک آباد ہو گئے (مطالعہ کتاب قطب)۔ راجپوتوں کے قبیلہ جھمٹ کی کڑی سے راقم کا تسلسل ملتا ہے۔ جھمٹ راجپوت آج کل بنگلہ جھمٹاں نزد شاہ پور ضلع سرگودھا میں مرکزی حیثیت سے آباد ہیں۔ معاشی تنگدستی نے کاشتکاری سے ہٹ کر آباؤاجداد کو دیگر پیشہ ہائے پارچہ بافی، چھیپبا زنی، گازری، درزی گری اور بے گار کاموں کو اپنا کر شکم پروری پر مجبور کر دیا۔ اہل ثروت نے کاشتکاری اپنائی۔ جب نسل انسانی بڑھی اور عرصئہ حیات تنگ ہوا تو زبردستوں نے زیردستوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ جھمٹ قبیلہ کے ایک غریب سربراہ کا نام بدھو تھا ،اس کا ایک بیٹا "اسلام" اور اس کے ایک فرزند کا نام "ماہی" تھا۔ ماہی کے دو بیٹے تھے، اسماعیل اور میاں فتح محمد۔ اسماعیل فکر معاش میں ترک سکونت کر کے جھنگ کے ایک قصبہ رجوعہ سادات کی نزدیک آن آباد ہوا جہاں اطراف میں نسل پھیلی۔ جبکہ میاں فتح محمد موضع حبیب ضلع جھنگ میں جا گزیں ہوا۔ اس کی نسل سے تین فرزند پیدا ہوئے۔ غلام حسن، مسن اور غلام حسین۔ راجپوٹ خون ہونے کے ناطے یہ لوگ رانا کہلاتے ہیں۔ 1870 کے عشرے میں جب موضع حبیب میں نول قبیلہ کی چیرہ دستیاں حدود انسانیت سے متصادم ہوئیں اور کسی کسب میں شکم پری غربا کے لیے ممکن نہ رہی تو من جملہ ترک سکونت کر کے تمام قبیلہ ٹھٹہ پاتوانہ نزد جھنگ خیمہ زن ہوا۔ جہاں پر سیال خاندان نے سرپرستی شروع کر دی۔ علم کی روشنی اور اہل علم کی صحبت نے کچھ شعور پیدا کیا اور بزرگ جو لڑی غلام حسن سے رانا محمد بخش المعروف "گردآور" نے ملازمت بحیثیت "بیلف" کی، اسی نسبت سے لقب گردآور مشہور ہوا۔ میاں محمد فتح کی اولاد میں میاں بڈھا سربراہ ٹھہرے، ان سے چلنے والی نسل "بڈھے کی" کہلائی۔ 1902 کے بعد بڈھے کی لڑی نے اکثریت سے ملازمت پولیس اختیار کی اور سب انسپکٹر کے عہدے تک بھی گئے۔ ان میں سے بڑے سرگودھا جا کر آباد ہوئے۔ اور دربار سیال شریف کی نسبت سے سگ دربار سیال شریف کہلانے میں فخر محسوس کیا۔ دوسرے بھائی نے ساہیوال میں ناتا کیا کور وہیں کے ہو کے رہے۔ بڈھے کی لڑی کے شرفا محلہ منشیاں والا جھنگ میں آباد و شاد ہیں اور آج کل رانا اللہ دتہ اورسیر ان کے معتبر ہیں۔ میاں فتح کی اولاد میں مسن نامی بزرگ ہوئے، بہت مختصر کارواں ہے۔ اس لڑی سے متعلقہ افراد آج کل بستی گھوگھہ ضلع جھنگ میں آباد ہیں۔ تیسرے فرزند حسین کے فرزند جہانا، شہامند یا شیخ احمد اور محمد بخش تھے۔ آگے ان کی نسبت جہاں کے، شہامند کے اور محمد بخش (گرداور) کے اور مراد کے کہلاتے ہیں۔ 1902 میں گرداور کے گوٹھ باتوانہ میں فرزند ارجمند پیدا ہوا، نام غلام محمد رکھا۔ ابتدائی تعلیم جھنگ سٹی میں تھمن شاہ کے مکتب سے حاصل کی، یہاں پر قسمت نے پانسا پلٹا اور تعلیم کی بہرہ مندی سے اکثریت ہم عصر میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ شہامند کی لڑی سے رانا عطا محمد اور رانا رنگ الہئی نامور ہیڈماسٹر ہوئے۔ گرداور کی اولاد میں غلام محمد اعلی تعلیم کے لیے طب مویشیاں لاہور وٹرنری کالج میں داخل ہوئے اور بطور ڈاکٹر سرکاری ملازمت اختیار کی۔ ترقی کا نصییبہ جاگا تو اعلی عہدہ پر ترقی پا کر ڈپٹی ڈایریکٹر ہوئے اور ڈپٹی کہلائے۔ غریب پروری، ادائیگی زکوہ اور اقربا پروری کے باعث علاقہ میں اور برادری میں ہر دل عزیز ہوئے۔ اور ڈپٹی کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے۔ ملازمت سے ریٹائر ہوتے ہی حیات نے یاوری نہ کی اور ریٹائرمنٹ کے آٹھ ماہ بعد 1958 میں خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ بڑا بیٹا ابھی زیر تعلیم تھا۔ راقم ڈپٹی صاحب کا بڑا بیٹا ہے۔ اور پدری پیشہ اپنائے‎ ہوئے ڈپٹی کے عہدہ سے حال ہی میں ریٹائر ہوا ہے۔ اکثریت برادری نے مختلف اطراف میں رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ گرداور کے چھوٹے بیٹے نور محمد اور ان کے فرزند ارجمند رانا محمد اشفاق اعلی ترین عہدہ پر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں تعینات جبکہ رانا زاہد محمد کے صاحبزادگان معلمی اپنائے‎ ہوئے نہائت خوش حال ہیں۔ دیگر تمام برادری سرگودھا، ساہیوال، جھنگ سٹی، ملتان، وہاڑی، فیصل آباد اور لاہور میں اپنے اپنے حال میں زندگی کی طرف رواں دواں ہیں۔ آخر میں استدعا ہے کہ اس حقیر کاوش پر قارئین کرام راقم کے لیے دعائے صحت فرمائیں۔ خیر اندیش ڈاکٹر رانا محمدجاوید اقبال

---

( یہ تحریر ان کی وفات سے تین ماہ قبل کی ہے۔)