حفصہ بنت عمر

پیغمبر اسلام محمد کی زوجہ اور اُم المؤمنین، خلیفہ دؤم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیٹی۔

حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا (15ق.ھ / 45ھ) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک تھیں۔آپ رضی اللہ عنہ بعثت نبوی سے 5 سال قبل پیدا ہوئیں۔[1] بعثت سے پانچ ( 5 )برس پہلے جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے پیدا ہوئیں۔پہلے خنیس بن حذیفہ سہمی کے نکاح میں تھیں۔ان ہی کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی۔ حضرت خنیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ بدر میں کئی زخم کھائے۔ غزوہ کے بعد ان ہی زخموں کی وجہ سے انتقال فرما گئے۔ حضرت خنیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنی بیٹی کے نکاح کی فکر ہوئی۔فتح بدر کے دن حضرت رُقیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا انتقال ہو چکا تھا اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں حفصہ کا نکاح تم سے کر دیتا ہوں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔پھر چند روز کے بعد کہہ دیا کہ میرا ارادہ ان ایام میں نکاح کرنے کا نہیں ہے۔بعد ازاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ذکر کیا مگر وہ چپ ہو رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ اس پر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رنج ہوا ۔ اس کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواستگاری کی اور شعبان میں نکاح ہو گیا۔ نکاح کے بعد حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ میری بے التفاتی کی وجہ صرف یہ تھی جو مجھے معلوم تھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حفصہ کا ذکر کیا تھامیں حضور کا راز اِفشاء کرنا نہ چاہتا تھا۔ اگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حفصہ سے نکاح نہ کرتے تو میں قبول کرلیتا۔ حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے صرف پانچ صحیح بخاری میں ہیں ۔ انھوں نے شعبان 45ھ میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد خلافت میں انتقال فرمایا۔ مروان بن الحکم نے جو مدینہ کا گورنر تھا نماز جنازہ پڑھائی اور بنو حزم کے گھر سے مغیرہ کے گھر تک جنازہ کو کندھا دیا اور مغیرہ کے گھر سے قبر تک حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ شرف حاصل کیا۔ [2][3]،[4] [5]

حفصہ بنت عمر
(عربی میں: حَفْصَة بِنْتْ عُمَرْ بْنْ اَلْخَطَّابْ اَلْعَدَوِيَّة اَلْقُرَشِيَّة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 604ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات اکتوبر665ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات خنیس بن حذافہ (–اگست 624)
محمد بن عبداللہ (جنوری 625–8 جون 632)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عمر ابن الخطاب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ زینب بنت مظعون   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی

نام و نسب

حفصہ نام، عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے، حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباع بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن فہر بن مالک۔ والدہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا تھاجو مشہور صحابی عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ تھیں اور خود بھی صحابیہ تھیں،ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دونوں حقیقی بھائی بہن ہیں۔ حفصہ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں، اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے۔ [6]

ولادت

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے تقریباً 5 سال قبل پیدا ہوئیں۔[7]

خاندان

مکہ مکرمہ میں مختلف قبائل آباد تھے، انتظامی معاملات کو درست رکھنے کے لیے اور آپسی اختلافات و تنازعات کو حل کرنے کے لیے مختلف قبیلوں کو الگ الگ ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے بنی عدی کے پاس سفارت کا عہدہ تھا۔دیگر قبائل اس قبیلے کو ثالثی کے لیے منتخب کرتے اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی دوسرے قبیلے کو قریش کے ساتھ کوئی سیاسی معاملہ پیش آ جاتا تو بنی عدی کے سردار ہی بحیثیت سفیر سارے معاملات کو حل کرتے تھے۔ خود سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی قبل از اسلام بحیثیت سفیر لوگوں کے مسائل کو حل فرماتے تھے۔ [8]

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ماموں

سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ماموں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیں جو آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ کے سگے بھائی ہیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیشانی کا بوسہ لیا اور رونے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک آنسو سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے رخسار پر ٹپکنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس دنیا سے اس طرح چلے گئے کہ اس کی کسی چیز سے بھی تعلق نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اَلسَّلَفُ الصَّالِح کے خطاب سے نوازا، آپ پہلے صحابی رسول ہیں جنہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ .[9]

ابتدائی تعلیم و تربیت

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس گھر میں آنکھ کھولی، جرات و عزیمت، بہادری و شجاعت کا وہاں پر پہلے سے بسیرا تھا، اس لیے مزاج میں بے خوفی کا پیدا ہونا فطری تقاضا تھا۔اس کے علاوہ یہ گھر مکہ کے ان گنے چنے گھروں میں شمار ہوتا ہے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اس لیے آپ نے بھی بچپن میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ مزید اخلاقی تربیت آپ کے والد گرامی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی۔ [10] [11]

قبولِ اسلام

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہی دنوں میں اسلام قبول کیا جب آپ کے والد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبول فرمایا ۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک لگ بھگ دس سال تھی۔ [12] [13] [14]

نکاح اول اور ہجرت

آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح قبیلہ بنو سہم کے چشم و چراغ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ حضرت خنیس رضی اللہ عنہ کا شمار ان جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے جو السابقون الاولون کے اعزاز سے معزز ہیں اور جنھوں نے حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ ہجرت حبشہ سے واپسی مکہ پہنچنے پر حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہو گیا۔جب مدینہ کی طرف ہجرت کا وقت آیا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر سیدنا خنیس رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ [15] [16]

شہادت خنیس رضی اللہ عنہ

مدینہ منورہ میں دین حق کی دعوت کو مضبوط اور کفار کے شرور وفتن سے محفوظ کرنے کے لیے باضابطہ پہلا معرکہ بدر کے میدان میں بپا ہوا۔ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے شوہر خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ بھی اس معرکہ میں ایمانی جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ اپنی شجاعت کے جوہر دکھلائے مردانہ وار لڑے یہاں تک کہ آپ کو کاری ضرب لگی، چنانچہ آپ کو واپس مدینہ لایا گیا، علاج معالجہ کے باوجود آپ جانبر نہ ہو سکے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں۔ [17] [14].[18]

مدتِ عدت کی تکمیل اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی فکرمندی

حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر تقریباً 21 سال تھی۔ اس کم عمری میں بیوگی کا صدمہ سہنا آسان نہیں تھا مزید یہ کہ آپ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مزاج اسلام کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی عدت کی مدت مکمل ہونے کے بعد ان کے نکاح کی فکر لاحق ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ جلد سے جلد سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا گھر دوبارہ سے آباد ہو جائے۔ جوان بیٹی کے دامن سے بیوگی کے داغ کو دھونے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے نیک صالح سلیقہ مند شوہر کی تلاش شروع کی۔ دوسری طرف غزوہ بدر کے دنوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سیدہ رقیہ بنت محمد رسول اللہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو چکا تھا۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیا دار اور نیک صالح انسان تھے،اس لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں آپ سے بات کرنے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔ اس پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سوچنے کے لیے کچھ دن کا وقت لے لیا۔ کچھ دنوں بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوبارہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور اُن سے اس بارے دریافت کیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے معذرت کر لی اور فرمایا کہ میرا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات کی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی بات کو بغور سن تو لیا لیکن کوئی جواب دیے بغیر خاموش ہو گئے۔ رنجیدگی کے عالم میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور ساری صورت حال بتلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایسی خوشخبری سنائی کہ آپ کو کسی بات کا ملال باقی نہ رہا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حفصہ کی شادی اس شخص کے ساتھ ہو گی جو ابوبکر صدیق اور عثمان بن عفان سے افضل ہے اور عثمان بن عفان کی شادی اس خاتون سے ہو گی جو حفصہ سے بہتر ہے۔ [17][19]

حفصہ رضی اللہ عنہا کا ام المؤمنین بننا

ایسے ہی ہوا ,کچھ عرصہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے اپنا پیام نکاح سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر بھجوایا۔ جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بصد خوشی قبول فرمایا، چنانچہ شعبان المعظم کے مہینے میں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بعوض 400 درہم حق مہر کے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ اس وقت سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر تقریباً 22 سال تھی۔ ۔[20][21] [22]

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا مکان

حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحابی ہیں، ان کے مسجد نبوی کے قریب کئی مکانات تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ اپنا ایک مکان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش فرما دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تو حضرت حارثہ نے ایک مکان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد فرمایا۔ شادی کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کو جو مکان ملا وہ مسجد نبوی کے مشرقی جانب تھا۔ [23]

نبوی گھرانے کی تربیت

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنے والد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے سے جو اعلیٰ اوصاف وراثتاً ملے ان میں جرات، حق گوئی، معاملہ فہمی، دور اندیشی، نکتہ آفرینی، زورِ خطابت اور فصاحت و بلاغت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں چونکہ خواتین کی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیمی صلاحیتوں میں مزید نکھار لانے کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پڑھی لکھی خاتون سیدہ شفا بنت عبد اللہ عدویہ رضی اللہ عنہا کو مقرر فرمایا کہ وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیمی حالت میں مزید بہتری لائیں۔ چنانچہ انھوں نے آپ رضی اللہ عنہا کو مزید پڑھایا لکھایا اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی سکھلایا۔ [24][25]

خواتین کے حقوق

زمانہ جاہلیت میں عرب کی معاشرتی اقدار اس قدر گر چکی تھیں کہ انسانیت اچھائی و بھلائی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تھی۔ بالخصوص اُس دور میں مردوں اور خواتین کے درمیان جن امتیازی رویوں نے جنم لیا اس سے صنف نازک اپنی حیثیت کھو بیٹھی تھی۔ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات اور عملی رویوں کے ذریعے عرب کے امتیازی رویوں کو شکست دی۔ آپ کے گھرانے سے ازواج مطہرات کی عملی زندگیاں اس راستے میں مشعل راہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بنیادی حقوق کی خاطر بے شمار اصلاحات فرمائیں، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہا سے حُسنِ سلوک کا ایک منفرد اور مثالی معیار قائم فرمایا، جو اس سے پہلے نہیں تھا۔ انھیں اپنی رائے کے اظہار کا پورا پورا حق دیا۔ ان کے نسوانی مزاج سے پیش آنے والے امور کو خندہ پیشانی سے سنبھالا۔ یہی وجہ تھی کہ امہات المومنین اپنے مطالبات پوری بے باکی اور بے تکلفی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر دیا کرتی تھیں اور معاشرتی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار بلا تکلف کر دیا کرتی تھیں۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بعض روایات میں ملتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی بات کو بے جھجک پیش کر دیا کرتی تھیں۔ [26] [12][22]

جمع قرآن اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما تشریف لائے،جو آرمینیہ اور آذربائیجان کو فتح کرنے کے لیے اہل عراق کے ساتھ مل کر شامیوں سے جہاد کر رہے تھے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے قرآن کریم میں اختلاف کرنے کے رویے نے گھبراہٹ میں ڈال رکھا تھا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ اے امیر المؤمنین !اس سے پہلے یہ امت بھی کتاب اللہ کے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح آپس میں اختلافات کا شکار ہو جائے آپ اختلافات کا سد باب کریں۔چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ مصحف) جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لکھوایا اور سیدنا عمر کے پاس ساری زندگی محفوظ رہا اور سیدنا عمر بن خطاب کے بعد اب آپ کے پاس ہے(عنایت فرمائیں تاکہ ہم اس کے مطابق نسخے تیار کریں اس کے بعد آپ کو یہ مصحف واپس کر دیں گے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ مصحف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر ، حضرت سعید بن عاص اور حضرت عبد الرحمن بن حارث رضی اللہ عنہم کے حوالے کیا تاکہ اسی کے مطابق دیگر قرآن کریم کے نسخے تیار کیے جا سکیں۔ جب نسخے تیار ہو چکے تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ مصحف ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی کو واپس کر دیا۔ اب تا قیامت اُمّ المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بار احسان ایسا ہے جس پر مسلمانوں کی گردنیں جھکیں ہوئی ہیں۔ روئے زمین پر جب بھی کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرے گا تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا احسان بھی یاد آئے گا۔[27] [28] .[29]

اولاد

کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔

روایت حدیث

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بہت بڑی عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتی ہیں ۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ساٹھ (60) حدیثیں روایت کی ہیں جن میں سے پانچ (5) حدیثیں صحیح بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں ۔

علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت مشہور ہیں ۔

حفصہ رضی اللہ عنہا کا شوقِ حصول علم

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تعلق اس خاندان سے تھا جو اپنی فصاحت و بلاغت، فہم و فراست اور تقریر میں قریش میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بخوبی واقف تھے لہذا آپ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صحابیہ حضرت شفاء بنت عبداللہ عدیہ کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم پر مامور کیا انھوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہ صرف لکھنا سکھایا بلکہ زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی سکھایا۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تعلیم و تفہیم کا بے پناہ شوق رکھتی تھیں یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات و اقوال نہایت توجہ سے سنتیں اور اگر ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار فرمایا کرتی تھیں۔ مسند احمد بن حنبل میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اہل ایمان غزوہ بدر اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔ یہ ارشاد پاک سن کر آپ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

’’اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے مگر اس کا اس (دوزخ) پر سے گذر ہونے والا ہے یہ (وعدہ) قطعی طور پر آپ کے رب کے ذمہ ہے جو ضرور پورا ہوکر رہے گا۔‘‘

مریم: 71

یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ درست ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:

’پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے‘

المریم: 72

آپ رضی اللہ عنہا کا یوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنا آپ رضی اللہ عنہا کی علم کے لیے پیاس اور شغف کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔

ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے 10ھ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں حج کی ادائیگی کا شرف حاصل کیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی و تربیت اس جماعت کا حصہ بن گئیں جس نے خواتین سے متعلق حج کے آداب و مناسک اور احکام و مسائل کی تعلیم دیگر خواتین تک پورے وثوق کے ساتھ پہنچائی۔ [30][31]

فضل و کمال

معنوی یادگاریں بہت سی ہیں اور وہ ہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ، حمزہ (بن عبد اللہ)، صفیہ بنت ابو عبید (زوجہ عبد اللہ)، حارثہ بن وہب، مطلب ابی وادعہ، ام مبشر انصاریہ، عبد اللہ بن صفوان بن امیہ، عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت حفصہ سے ساٹھ حدیثیں منقول ہیں، جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے سنی تھیں۔

تفقہ فی الدین کے لیے واقعہ ذیل کافی ہے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدر و حدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے، حفصہ نے اعتراض کیا کہ خدا تو فرماتا ہے "تم میں سے ہر شخص وارد جہنم ہو گا" آپ نے فرمایا ہاں لیکن یہ بھی تو ہے۔" پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس پر زانووں پر گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔"[32] اسی شوق کا اثر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تعلیم کی فکر رہتی تھی، شفاء کو چیونٹی کے کاٹے کا منتر آتا تھا، ایک دن وہ گھر میں آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم حفصہ کو منتر سکھلا دو۔[33] حضرت انس رضی اللہ عنہ سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کی منقبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: اے حفصہ! ابھی ابھی جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے ہیں اور مجھ سے کہا: بے شک وہ (سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا) بہت زیادہ روزے دار اورکثرت سے راتوں کو اللہ کے حضورقیام کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہیں۔ [34][35]

اخلاق

"وہ (حفصہ) صائم النہار اور قائم الیل ہیں۔"[36] دوسری روایت میں ہے: "انتقال کے وقت تک صائم رہیں۔"

اختلاف سے سخت نفرت کرتی تھیں،جنگ صفین کے بعد جب تحکیم کا واقعہ پیش آیا تو ان کے بھائی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کو فتنہ سمجھ کر خانہ نشین رہنا چاہتے تھے، لیکن حفصہ نے کہا کہ گو اس شرکت میں تمھارا کوئی فائدہ نہیں، تاہم تمھیں شریک رہنا چاہیے، کیونکہ لوگوں کو تمھاری رائے کا انتظار ہو گا اور ممکن ہے کہ تمھاری عزلت گزینی ان میں اختلاف پیدا کر دے۔[37]

دجال سے بہت ڈرتی تھیں، مدینہ میں ابن صیاد نامی ایک شخص تھا، دجال کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو علامتیں بتائی تھیں، اس میں بہت سی موجود تھیں، اس سے اور عبد اللہ بن عمر سے ایک دن راہ میں ملاقات ہو گئی، انھوں نے اس کو بہت سخت سست کہا، اس پر وہ اس قدر پھولا کہ راستہ بند ہو گیا، ابن عمر نے اس کو مارنا شروع کیا حفصہ کو خبر ہوئی تو بولیں، تم کو اس سے کیا غرض، تمھیں معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے خروج کا محرک اس کا غصہ ہوگا۔[38][39]

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں ذرا تیزی تھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی کبھی دوبدو گفتگو کرتیں اور برابر کا جواب دیتی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں خود عمر بن خطاب سے منقول ہے کہ "ہم لوگ جاہلیت میں عورت کو ذرہ برابر بھی وقعت نہ دیتے تھے، اسلام نے ان کو درجہ دیا اور قرآن میں ان کے متعلق آیتیں اتریں، تو ان کی قدر و منزلت معلوم ہوئی، ایک دن میری بیوی نے کسی معاملہ میں مجھ کو رائے دی، میں نے کہا، "تم کو رائے و مشورہ سے کیا واسطہ" بولیں، "عمر ابن خطاب تم کو ذرا سی بات کی بھی برداشت نہیں حالانکہ تمھاری بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو برابر کا جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ آپ دن بھر رنجیدہ رہتے ہیں،" میں اٹھا اور حفصہ کے پاس آیا، میں نے کہا "بیٹی میں نے سنا ہے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہو" بولیں "ہاں ہم ایسا کرتے ہیں" میں نے کہا خبردار میں تمھیں عذاب الہی سے ڈراتا ہوں، تم اس عورت (عائشہ) کی ریس نہ کرو جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پر ناز ہے۔[40]

ترمذی میں ہے کہ ایک دفعہ صفیہ رو رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور رونے کی وجہ پوچھی، انھوں نے کہا کہ مجھ کو حفصہ نے کہا ہے کہ "تم یہودی کی بیٹی ہو" آپ نے فرمایا حفصہ خدا سے ڈرو، پھر صفیہ سے ارشاد ہوا "تم نبی کی بیٹی ہو۔ تمھارا چاچا پیغمبر ہے اور پیغمبر کے نکاح میں ہو، حفصہ تم پر کس بات میں فخر کر سکتی ہے۔"[41]

ایک بار عائشہ اور حفصہ نے صفیہ سے کہا کہ "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تم سے زیادہ معزز ہیں، ہم آپ کی بیوی بھی ہیں اور چچا زاد بہن بھی، صفیہ کو ناگوار گذرا، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، آپ نے فرمایا تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ تم مجھ سے زیادہ کیونکر معزز ہو سکتی ہو، میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم، میرے باپ ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسی علیہ السلام ہیں۔"

حضرت عائشہ ، ابو بکر کی اور حفصہ ،عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کی بیٹی تھیں جو تقریب نبوی میں دوش بدوش تھے، اس بنا پر عائشہ و حفصہ بھی دیگر ازواج کے مقابلہ میں باہم ایک تھیں۔ چنانچہ واقعہ تحریم جو سنہ 9 ہجری میں پیش آیا تھا، اسی قسم کے اتفاق کا نتیجہ تھا، ایک دفعہ کئی دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب کے پاس معمول سے زیادہ بیٹھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ زینب کے پاس کہیں سے شہد آ گیا تھا، انھوں نے آپ کو پیش کیا آپ کو شہد بہت مرغوب تھا۔ آپ نے نوش فرمایا، اس میں وقت مقررہ سے دیر ہو گئی، عائشہ کو رشک ہوا حفصہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے اور تمھارے گھر میں آئیں تو کہنا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے،[ح 1] (مغافیر کے پھولوں سے شہد کی مکھیاں رس چوستی ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ میں شہد نہ کھاؤں گا۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت اتری:[42] "اے پیغمبر اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے تم خدا کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کیوں کرتے ہو؟"

کبھی کبھی (حفصہ و عائشہ) میں باہم رشک و رقابت کا اظہار ہو جایا کرتا تھا، ایک مرتبہ عائشہ و حفصہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھیں، رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو عائشہ کے اونٹ پر چلتے تھے اور ان سے باتیں کرتے تھے، ایک دن حفصہ نے عائشہ سے کہا کہ آج رات کو تم میرے اونٹ پر اور میں تمھارے اونٹ پر سوار ہوں تا کہ مختلف مناظر دیکھنے میں آئیں، عائشہ رضی اللّٰہ عنہا راضی ہو گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کے اونٹ کے پاس آئے جس پر حفصہ سوار تھیں جب منزل پر پہنچے اور عائشہ نے آپ کو نہیں پایا تو اپنے پاؤں کو اذخر[ح 2] کے درمیان میں لٹکا کر کہنے لگیں، "خداوند! کسی بچھو یا سانپ کو متعین کر جو مجھے ڈس جائے۔"[43] یہ حضرت حفصہ سے رقابت کا اظہار نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سفر جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ پسند کرتے تھے اس سے محرومی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدگی کی بجائے حضرت حفصہ کو حضور کی مرضی کے خلاف اونٹ پر بٹھانا تھا۔[44] [44][45] [46]

سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی وصیت

آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک جب 60 سال کے قریب ہوئی، آپ نے زندگی کے دروازے پر موت کی دستک کو محسوس کیا تو اپنے بھائی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا بھیجا، وہ آئے تو فرمانے لگیں: عبد اللہ ! تمھیں یاد ہوگا والد محترم نے وفات سے قبل چوتھائی حصہ مال کی میرے لیے وصیت کی تھی۔ آپ کو یاد ہے۔؟ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔جی بالکل یاد ہے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا پھر یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ والد محترم نے فرمایا تھا کہ جب میں وفات پا جاؤں تو اس مال کو آل عمر میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بھی آپ کو یاد ہے؟ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں یہ بھی یاد ہے۔ تب آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: غابہ میں جو مال اور جائداد ہے اس کو فی سبیل اللہ صدقہ کردینا۔ [44][47]

وفات

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شعبان سن 45ھ ہجری میں مدینہ میں انتقال کیا، یہ امیر مُعاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی ملوکیت کا زمانہ تھا۔ مروان نے جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا، نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کندھا دیا، اس کے بعد ابو ہریرہ جنازہ کو قبر تک لے گئے، ان کے بھائی عبد اللہ بن عمر اور ان کے لڑکوں عاصم، سالم، عبد اللہ اور حمزہ نے قبر میں اتارا۔

ام المومنین حفصہ کے سنہ وفات میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ جمادی الاول سنہ 41ھ ہجری میں وفات پائی، اس وقت ان کا سن 59 سال کا تھا۔ لیکن اگر سنہ وفات 45 ہجری قرار دیا جائے۔ تو ان کی عمر 63 سال کی ہو گی، ایک روایت ہے کہ انھوں نے عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت میں انتقال کیا، یہ روایت اس بنا پر پیدا ہو گئی کہ وہب نے ابن مالک سے روایت کی ہے جس سال افریقا فتح ہوا، حفصہ نے اسی سال وفات پائی اور افریقہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سنہ 27ھ میں فتح ہوا۔ لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ افریقا دو مرتبہ فتح ہوا۔ اس دوسری فتح کا فخر امیر معاویہ کو حاصل ہے، جنھوں نے معاویہ کے عہد میں حملہ کیا تھا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت عبد اللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ کو بلا کر وصیت کی اور غابہ میں جو جائداد تھی جسے عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ ان کی نگرانی میں دے گئے تھے، اس کو صدقہ کر کے وقف کر دیا۔[48] [31][49] [50]

حواشی

  1. مغافیر کی بو کا اظہار کرنا کوئی جھوٹ بات نہ تھی مغافیر کے پھولوں میں اگر کسی قسم کی کرختگی ہو تو تعجب کی بات نہیں
  2. ایک گھاس ہے

حوالہ جات

  1. سیر الصحابہ، سعید انصاری، جلد 6، صفحہ 50، دارالاشاعت کراچی
  2. شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ ، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات ۔۔۔إلخ ، ج 4، ص393،395۔علمیہ
  3. عبد الله بن عمر البيضاوي۔ "تفسير البيضاوي، ج 5"۔ shiaonlinelibrary.com۔ صفحہ: 355۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  4. أبو الثناء الآلوسي۔ "تفسير الآلوسي، ج 28"۔ shiaonlinelibrary.com۔ صفحہ: 151۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  5. عبد العزيز بن عبد الرحمن كعكي (1419هـ/1998م)۔ معالم المدينة المنورة بين العمارة والتاريخ، ج 2 (بزبان عربی) (الأولى ایڈیشن)۔ المدينة المنورة: الشركة السعودية للنشر والتوزيع۔ صفحہ: 109 
  6. سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
  7. جمهرة أنساب العرب، فصل: ولد فهر بن مالك بن النضر لابن حزم على ويكي مصدر
  8. تقي الدين محمد بن أحمد التقي الفاسي (1998)۔ "العقد الثمين في تاريخ البلد الأمين، زينب بنت مظعون بن حبيب بن وهب بن حذافة بن جمح"۔ المكتبة الشاملة۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 395۔ 22 يوليو 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولا‎ئی 2021 
  9. الذهبي 2001، ج. 1 ص. 154
  10. فصل الخطاب في سيرة أمير المؤمنين عمر بن الخطاب، شخصيته وعصره، د.علي محمد محمد الصلابي ص19
  11. ابن الأثير 1994، ص. 135
  12. ^ ا ب الذهبي 2001، ج. 2 ص. 228-230
  13. سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
  14. ^ ا ب خالد الحمودي۔ "أم المؤمنين حفصة بنت عمر بن الخطاب، إسلامها"۔ المكتبة الشاملة۔ دار القاسم۔ صفحہ: 3۔ 23 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2021 
  15. سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
  16. سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
  17. ^ ا ب العسقلاني 2010، ج. 2 ص. 290-291
  18. أبو جعفر محمد بن جرير الطبري (2017)۔ تاريخ الطبري المجلد الثاني (بزبان عربی)۔ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت - لبنان۔ صفحہ: 232۔ 5 نوفمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  19. صحیح بخاری ج2 ص571
  20. اصابہ ج8 ص51
  21. ^ ا ب عماد الهلالي (2010)۔ معجم أعلام النساء في القرآن الكريم (بزبان عربی)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 101، 102۔ ISBN 978-2-7451-6968-6۔ 23 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  22. العسقلاني 1986، ج. 3 ص. 81-82
  23. حفصة زوجة الرسول 29/07/2008 قصة الإسلام آرکائیو شدہ 2016-12-14 بذریعہ وے بیک مشین
  24. سانچہ:استشهاد بهارفارد دون أقواس
  25. العسقلاني 1986، ج. 7 ص. 370
  26. خالد الحمودي۔ "كتاب أم المؤمنين حفصة بنت عمر بن الخطاب، أخلاقها وفضائلها"۔ المكتبة الشاملة۔ دار القاسم۔ صفحہ: 10۔ 23 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2021 
  27. محمد ابن سعد البغدادي۔ "الطبقات الكبرى، ج 8"۔ lib.eshia.ir (بزبان فارسی)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 68۔ 26 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  28. أبو جعفر محمد بن جرير الطبري۔ "تفسير الطبري، تفسير سورة التحريم، القول في تأويل قوله تعالى "وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا فلما نبأت به وأظهره الله عليه عرف بعضه وأعرض عن بعض"، الجزء رقم23"۔ islamweb.net (بزبان عربی)۔ دار المعارف۔ صفحہ: 482: 483۔ 12 نوفمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  29. ^ ا ب سبب طلاق النبي لحفصة دون عائشة،إسلام ويب الإثنين 18 محرم 1428 - 5-2-2007 "نسخة مؤرشفة"۔ 2 يناير 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 أكتوبر 2015 
  30. مسند احمد بن حنبل ج6 ص285
  31. مسند ابن حنبل ج6 ص281
  32. محمد بن علي الشوكاني (2007)۔ مدیر: أحمد عبد السلام۔ تفسير الشوكاني (فتح القدير) ج2 (بزبان عربی)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 847۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  33. جلال الدين السيوطي (2003م – 1424هـ)۔ "الدر المنثور، تفسير سورة التحريم، الجزء رقم15"۔ islamweb.net (بزبان عربی) (الأولى ایڈیشن)۔ مركز هجر۔ صفحہ: 568: 576۔ 12 نوفمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  34. اصابہ ج8 ص52
  35. صحیح بخاری ج2 ص589
  36. مسند احمد بن حنبل ج6 ص283
  37. مسلم کتاب الفتن ذکر ابن صیاد
  38. بخاری ج2 کتاب التفسیر وفتح الباری ج8 ص504
  39. ترمذی بالفضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم
  40. صحیح بخاری ج2 ص29
  41. صحیح بخاری (وسیرة النبی جلد دوم)
  42. ^ ا ب پ أبو نعيم الأصبهاني۔ "حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، باب: النساء الصحابيات، حفصة بنت عمر، فصل: نهى الله تعالى رسوله عن طلاق حفصة بنت عمر"۔ islamweb.net (بزبان عربی)۔ دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع۔ صفحہ: 50: 51۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  43. "الردّ على من يزعم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبغض أم المؤمنين حفصة رضي الله عنها. - الإسلام سؤال وجواب"۔ islamqa.info (بزبان عربی)۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  44. أبو الفضل أحمد بن أبي طاہر ابن طيفور (1326 هـ - 1908 م)۔ "بلاغات النساء، كلام حفصة بنت عمر بن الخطاب"۔ المكتبة الشاملة۔ مطبعة مدرسة والدة عباس الأول، القاهرة۔ صفحہ: 30۔ 1 نوفمبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2021 
  45. "إن الله يأمرك أن تراجع حفصة - إسلام ويب - مركز الفتوى"۔ www.islamweb.net (بزبان عربی)۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  46. زرقانی ج3 ص271
  47. "ماهو سبب تطليق النبي صلى الله عليه وسلم لأم المؤمنين حفصة رضي الله عنها؟ - الإسلام سؤال وجواب"۔ islamqa.info (بزبان عربی)۔ 30 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2021 
  48. محمد ابن سعد البغدادي۔ "الطبقات الكبرى، ج 8"۔ lib.eshia.ir (بزبان فارسی)۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 69۔ 24 أكتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2021