مزید پڑھیں

حمزہ بن علی بن احمد اسماعیلی مذہب رکھتا تھا۔ دروز قوم کے مذہبی نظام کا بانی۔ متعدد کتب کا مصنف۔ جسے دروزی کتب مقدسہ میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ مؤرخ النویری کے خیال کے مطابق وہ علاقہ زوزن ’’فارس‘‘ کا باشندہ تھا۔ اور ابتدا میں اس کا پیشہ لبادہ سازی تھا۔ 410 ھ مطابق 1019ء یا بقول حمزہ بن علی اس سے دو سال قبل اس نے اپنے عقائد کا اعلان کیا۔ وہ مصر میں غالبا 405 ھ میں وارد ہوا۔ اس نے قاہرہ کی ایک مسجد میں اپنے عقائد کا اعلان کیا۔ عوام میں فساد برپا ہو گیا اور ایک عرصہ تک اسے خلیفہ کی پناہ میں عزلت اور تنہائی کی زندگی بسر کرنا پڑی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ 411 ھ مطابق 1020ء میں خلیفہ کے اچانک لاپتا ہونے کے بعد اس کا اپنا انجام کیا ہوا۔ تاہم دروزوں کے مذہبی نظام میں اسے حاکم الزمان، عقل عالم کا امتیازی درجہ حاصل ہے۔ اور وہ اسے ہادی اعظم کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

ایک ایرانی الاصل داعی حمزہ اللباد ( سمور فرش ) الزوزنی نے الدروزی کی تعلیمات کی مذمت کی۔ حمزہ دراصل اس تحریک کا دل و دماغ تھا۔ اس نے درزیت کے بنیادی عقائد تیار کیے۔ اس کے الہیات میں باطنیت کا رنگ غالب تھا۔ یعنی وہ تمام صحائف کے ظاہر الفاظ سے باطنی معنی نکالتا تھا۔ بنیادی باطنی تصور کے مطابق حقیقت خفیہ معافی انکشاف سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ ظاہری الفاظ محض ایک پردہ ہیں، جو حقیقت کو ناشاساؤں کی آنکھوں چھپانے کے لیے تان دیا گیا۔ حمزہ حاکم کی وفات سے کچھ عرصہ بیشتر قاہرہ میں جوش و غیظ سے بھرے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر، فلپ حتی۔ تاریخ شام