آپ اسماعیلی جماعت کے فاطمی دور کے حضرت امام حاکم بامراللہ علیہ السلام کے دورکے عظيم امرتبت اور نامور فلسفی داعی تھے۔دوسرے اسماعیلی داعیوں کی طرح آپ کی ابتدائی زندگی کے حالات بھی پردۂ اخفا میں ہیں۔ آپ کی تعلیم کے بارے میں اتنا معلوم ہوا ہے ۔ کہ آپ نے پہلے مشہور فلسفی داعی سیدنا ابو یعقوب الجستانی سے اسماعیلی حقائق اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد مزید تعلیم اور فیض حاصل کرنے کے لیے قاہرہ تشریف لے گئے۔جہان آپ نے شریعت و حکمت کے علوم پر عبور حاصل کیا اور دعوت کے مدارجِ عالیہ طے کرکے اوجِ کمال پر پہنچے۔چنانچہ آپ کو اس علمیت اور قابلیت کے پیش نظر میسوپوٹومیا اور شمال مغربی ایران یعنی عراق عرب اور عراق عجم دونوں میں حجت جزیرہ کے مرتبے پر فائز کیا گیا۔ اسی لیے آپ حجتہ العراقین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ اکثر بغداد اور بصرہ میں نقل مکانی کرتے اور اسماعیلی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مجالس الحکمتہ منعقد کیا کرتے تھے۔ اور آپ ہی کوششوں سے دعوت کوزبردست فروغ حاصل ہوا۔یہان تک کہ موصل کے عقیلی امرا نے بھی اسماعیلی مذہب قبول کیا۔ اور الجھ 401ھ ! 1010ء میں معتمدالدولہ قرواش بن مقلد العقیلی نے موصل ،انبار؛ مدائن ؛ اور کوفہ میں حضرت امام حاکم بامراللہ علیہ السلام کے نام کاخطبہ جاری کیا۔ جہان پہلے عباسی خلیفہ کے نام کاخطبہ پڑھایا جاتا تھا۔ پھر 408ھ! 1017ء میں امام حاکم علیہ السلام نے آپ کو قاہرہ بلوایا کیونکہ یہان دعوت کے کام میں کچھ روکاوٹیں پیدا ہو گئی تھیں۔اور کچھ عرصے کے لیے امام علیہ السلام کو درالحکمتہ بند کرنا پڑا تھا۔(درالحکمت ایک الگ ادارہ تھا جو مذہبی حقیقی تعلیمات پر سرچ کرتا تھا) چنانچہ آپ قاہرہ آئے اور پھر سے درالحکمتہ کو کھولاگیا۔اور آپ کے رئیس (صدر) مقررہوئے۔ آپ نے درالحکمتہ میں مختلف موضوعات پر لیکچر دیے اور داعیوں اور عام لوگوں میں امامت کی حقیقت کو سمجھنے میں جو اختلاف پیدا ہو گئے ان کو دور کرنے کے لیے بہت سی کتابیں اور رسالے لکھے۔ اسماعیلی دعوت میں آپ ایک منفرد مقام اور حیثیت کے مالک تھے۔آپ کی تعریف میں بہت سے داعیوں نے اپنے خیالات کااظہار کیاہے۔داعی ادریس لکھتے ہیں۔ کہ داعی۔حمیدالدین احمدبن عبد اللہ دعوت کی وہ بنیاد ہیں۔جس پر اس کی شاندار عمارت قائم ہے۔ اس کے ذریعے دعوت کوشہرت حاصل ہوئی۔اس کا مینار سیدھا کھڑا رہا۔ اس کے ذریعے مشکلات حل ہوئیں۔ اسی طرح شامی داعی سید نور احمد لکھتے ہیں۔کہ اگر اسماعیلی دعوت سیدنا کرمانی کے علاوہ کسی اور کو پیدا نہ بھی کرتی تو بھی آپ تن تنہااس کی فخر وبزرگی کے لیے کافی ہیں۔

وفات

ترمیم

آپ نے 408ھ/ 1017ء یا 411ھ/ 1020ء میں وفات پائی۔

تصنیفات

ترمیم

داعی ادریس نے سیدنا کرمانی کی تصنیفات کی کل تعداد 39 بتائی ان کتابوں میں سے بعض تومحفوظ ہو چکی ہیں۔اور بعض مطبوعات یا مخطوطات کی صورت میں ابھی تک دستیاب ہیں۔آپ کی تمام تر تصنیفات اسماعیلی مذہب کی حقانیت کے اسباب اور معترضین کے اعتراضات کے رد میں ہیں۔اور بالخصوص اسماعیلی حقائق پر آپ کی جوکتابیں ہیں۔وہ اسماعیلی دعوت میں نہایت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ان میں سے چند مشہور کتاب یہ ہیں۔ راحتہ العقل۔ کتاب الریاض ۔ المصابیح فی اثبات الامہ۔۔ تنبیہ الہادی۔الاقوال الذہبیتہ۔۔الرسالتہ الواعظہ وغیرہ[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ۔۔۔۔۔۔۔اسماعیلی ویب سائیٹ سے تاریخ دیکھنے کے لیے۔http://www.ismaili.net/heritage/node/10359