"انقلاب روس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
10 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
5 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 4:
زار کا روس ایک پسماندہ اور جاگیردارانہ معاشرہ تھا جو جنگ و جدل کے باعث زوال اور انحاط کا شکار تھا۔ ارِ روس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ وہ افسر شاہی کے ذریعے زراعت، تجارت اور ہر قسم کے ذرائع کا مختارِ کل تھا۔ اِس جگہ تجارت اور صنعت کا بہت زیادہ ذکر کرنے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ سن 1900 میں روس میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ صنعتی ورکنگ کلاس سے تعلق ر کھتے تھے۔ درحقیقت تمام کا تمام ملک زراعت پیشہ تھا۔ چند ایک جگہوں پر فیکٹریاں لگ چکی تھیں اور صنعت پیشہ مزدوروں کا استحصال بھی ملک کی زرعی زمینوں پر کام کرنے وا لے کسانوں طرح شروع ہو چکا تھا۔روس میں زرعی بیگار یا “سرفڈم ” کو 1649 میں قانونی تحفظ ملا۔ کسانوں کے پسے جانے کا عمل تو پہلے سے رائج تھا اب اسے قانون کی سر پرستی بھی حاصل ہو گئی۔ اگرچہ 1861 میں بیگار زرعی مزدوری کا نظام قانونی طور پر منسوخ کر دیا گیا مگر اس کے باوجود مزارعوں کے حالات میں کوئی قابلِ ذکر بہتری نہ ہوئی۔ <ref>{{cite web|url=http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1/.|title="انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔,"|accessdate=30 اگست 2018|date=|website=نیازمانہ|publisher=|last=|first=|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232719/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1/|archivedate=2018-12-24|url-status=dead}}</ref>
[[فائل:Monument-Tsar-Osvoboditel-1912.jpg|تصغیر|زار کا مجسمہ]]
انیسویں صدی کے وسط میں ماسکو میں [[صنعت کاری]] کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیاءکی پیدا کردہ کپاس سے ماسکو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا لیڈر بن گیا۔ 1900 ءتک ماسکو دس لاکھ نفوس کا شہر بن چکا تھا۔ دیہاتی علاقوں سے روزانہ لاکھوں مزدور فیکٹریوں میں کام کرنے آتے تھے۔ پیٹرز برگ سے انہیں روزی بھی ملی اور حقوق کا احساس اور شعور بھی۔1894ءمیں آہنی اعصاب کے مالک الیگزینڈر سوم کی اچانک وفات نے اس کے بیٹے نکولس دوم کو روس کا بادشاہ (زار) بنا دیا جو ایک کمزور منتظم تھا 1905ءمزدوروں کے ایک گروپ نے بادشاہ کو عرض گزاشت پیش کی کہ ”ہم [[سینٹ پیٹرز برگ]] کے باشندے ہمارے بیوی، بچے اور بوڑھے والدین آپ کے حضور انصاف اور تحفظ مانگنے کے لیے آئے ہیں“ اس پُر امن ریلی سے سیاسی سرگرمیوں کی ابتداءہو گئی اور احتجاجی جلسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔22جنوری 1905ءہی کے ایک یخ بستہ اتوار کے روز شہر میں بجلی بند ہو گئی۔ Civic Facilities ختم ہو گئیں۔ ایک لاکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ معروف مسیحی پادری فادر جورتی گیپن (جو پادری ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کا ایجنٹ بھی تھا) نے شاہی محل کے سامنے ایک پُرامن مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جس میں مزدوروں اور ان کے اہل خانہ نے حصہ لیا۔ مظاہرین 8 گھنٹے کی ڈیوٹی اور مزدوری میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ ”خونیں اتوار“ نے بادشاہت کو نفرت کی علامت بنا دیا۔ چند سالوں بعد پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی اور روس بھی جرمنی اور آسٹریا کے خلاف جنگ میں شریک ہو گیا۔ جس نے روس کی معیشت کو مزید برباد اور قوم کو بدحال کر دیا۔ <ref name="dublinregionpop">{{cite web|url=https://www.nawaiwaqt.com.pk/04-Aug-2011/118111|publisher=نوائے وقت|work=Census 2016|title="بادشاہوں اور انقلابیوں کا روس|date=اگست 2017|accessdate=16 جنوری 2018|last=|first=|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232713/https://www.nawaiwaqt.com.pk/04-Aug-2011/118111|archivedate=2018-12-24|url-status=livedead}}</ref>
 
پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بد ترین اثرات روس پر بھی پڑے ، جہاں تباہ حالی، قلت اور بھوک نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔  جنگ کے اخراجات کے باعث عوامی فلاح عامہ کے منصوبوں میں کمی کی گئی اور خوراک کی سخت قلت پیدا ہو گئی۔اس دوران فوج میں بھی عمومی گراوٹ کے اثرات دیکھے جا سکے تھے۔ اس کیفیت میں بڑ ے پیمانے پر بغاوت اور تحریک کے اثرات منڈلانے لگ گئے۔ پہلے پہل ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی جانب سے احتجاجات کا سلسلہ شرو ع کیا گیا جلد ہی اس تحریک کی عوامیت اور جنگوئی میں اضافہ اپنی مرکزیت کے مراکزبدلتا رہا اورٹیکسٹائل سے میٹل کے مزدوروں کی طرف تبدیل ہوتا رہا،معاشی ہڑتالیں سیاسی ہڑتالوں میں بدلتی رہیں اور چھوٹے علاقوں سے پیٹروگراڈ منتقل ہوتی رہیں۔1917کے پہلے دو مہینوں میں575,000ہڑتالیوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی جس کا بڑا حصہ دار الحکومت میں تھا۔پولیس کی طرف سے مارے جانے والے چھاپوں کی مہم کے باوجود9جنوری کو ڈیڑھ لاکھ مزدوروں نے خونی سالگرہ کے موقع پر ہڑتال کی اور مظاہرہ کیا۔ہڑتالیوں کا موڈ انتہائی جوشیلا تھا جن کی قیادت میٹل ورکر کر رہے تھے۔سبھی کو محسوس ہوگیاتھا کہ واپسی کا اب کوئی رستہ نہیں رہاہے۔ہر فیکٹری کے اندر، تقریباًہر جگہ بالشویکوں کے گرد ایک سرگرم مرکز قائم ہو چکاتھا۔فروری کے پہلے دو ہفتوں کے دوران میٹنگیں اور ہڑتالیں مسلسل ہوتی رہیں۔8فروری کوپوٹیلوف فیکٹری میں پولیس کا مار مار کر بھرکس نکال دیاگیا جبکہ 14فروری کو جب ڈوما کا اجلاس شروع ہو رہاتھا،90ہزار ورکروں نے پیٹروگراڈ میں ہڑتال کردی۔ماسکو میں بھی کئی پلانٹ بند ہو گئے۔16فروری کو انتظامیہ نے پیٹروگراڈ میں ’’روٹی کارڈ‘‘متعارف کرادیے۔اس انفرادیت نے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا اور19فروری کو عوام کے جھنڈ جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ،خوراک کی دکانوں پر جمع ہو گئے جو روٹی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ایک دن بعد ہی تمام بیکریاں بند کر دی گئیں ،یہ وہ گرماگرم ماحول تھا جس کی تپش میں انقلاب کا شعلہ پک رہاتھا اور جو کچھ ہی دنوں کے اندر بھڑکنے والاتھا۔ رہاتھا،90ہزار ورکروں نے پیٹروگراڈ میں ہڑتال کردی۔ماسکو میں بھی کئی پلانٹ بند ہو گئے۔16فروری کو انتظامیہ نے پیٹروگراڈ میں ’’روٹی کارڈ‘‘متعارف کرادیے۔اس انفرادیت نے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا اور19فروری کو عوام کے جھنڈ جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ،خوراک کی دکانوں پر جمع ہو گئے جو روٹی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ایک دن بعد ہی تمام بیکریاں بند کر دی گئیں ،یہ وہ گرماگرم ماحول تھا جس کی تپش میں انقلاب کا شعلہ پک رہاتھا اور جو کچھ ہی دنوں کے اندر بھڑکنے والاتھا <ref name="dicksonX">{{Cite book|title=انقلاب روس کی تاریخ|last=ٹراٹسکی|first=لیون ٹراٹسکی|publisher=طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز لاہور|year=2014|isbn=|location=|pages=xباب اول، والیم اول}}</ref>۔
سطر 10:
==== فروری انقلاب ====
[[فائل:Feb 1917.jpg|بائیں|تصغیر|فروری انقلاب کے دوران ہڑتال کا ایک منظر]]
23 فروری1917ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک ختم ہو چکی ہے، کچھ نہیں ملے گا۔ [4] اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ ء،سفید پوش  ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے   ۔27فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل، گولہ بارود، ریلوے اسٹیشن، ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل تھے۔ 1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔ مارچ تک طاقت سے محروم زار نکولاس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف [[شاہی خاندان]] قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ <ref>{{cite web|url=http://www.marxist.pk/the-february-revolution-of-1917-storming-heaven/.|title=1917ء کا فروری انقلاب۔۔۔ جب تخت گرائے گئے|publisher=لال سلام پبلیکیشنز|accessdate=مارچ 2017|date=3 جون 2009|website=لال سلام|last=ایلن|first=ووڈز|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232712/http://www.marxist.pk/the-february-revolution-of-1917-storming-heaven/|archivedate=2018-12-24|url-status=livedead}}</ref> اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بلا لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے تنگ آ چکی تھی۔ انہیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔ [4]  آمرانہ طرز حکومت، اقتصادی کمزوری، بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ و غضب بالآخر ایک انقلاب کی صورت میں ڈھل گیا جس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی [[جنگ عظیم]] سے قبل سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر قیادت اقتدار سنبھالا۔ جولائی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا، جو سیاسی اصلاحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس (اسمبلی) سامنے لانا چاہتی تھی۔یہ انقلاب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔  جب کہ بادشاہ کی بالا دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں ابھی بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین، زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے جنہوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے میں بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی کا نشان نہیں تھی۔ <ref>{{cite web|url=http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1/|title=انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔|format=|accessdate=30 دسمبر 2010|date=نومبر 2017|website=نیا زمانہ|publisher=|last=ڈاکٹر طاہرمنصور|first=قاضی|archiveurl=https://web.archive.org/web/20190105220852/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1/|archivedate=2019-01-05|url-status=dead}}</ref>
 
==== بالشویک پارٹی اور اپریل تھیسز ====
سطر 22:
 
==== جولائی کے دن ====
اپریل کے مسلح مظاہرےسے، جس میں ’’عبوری حکومتٗ مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا گیا، بڑا متنازع پیدا ہو گیا۔ اس واقعے سے دائیں بازو کے بعض نمائندوں کو لینن پر بلانکو ازم (Blanquism) کی تہمت لگانے کا موقع ہاتھ آیا۔ (بقول ان کے) عبوری حکومت جسے اس وقت سوویت کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، کو اکھاڑنا اسی صورت ممکن تھا جب تم محنت کشوں کی اکثریت کی توہین کرو۔دوسری جانب، روڈزیانکو جیسے مضبوط شخص نے، رنجشوں کی بنا پر استعفیٰ دے دیا۔ اور پرنس لواو نے اقتدار سنبھالا مگر اس کا ٹکراؤکیرنسکی سے ہو گیا اور یوں لواف کے ہٹنے کے بعد کیرنسکی نے جولائی 1917 میں عارضی حکومت سنبھالی۔ <ref>{{cite web|url=http://www.struggle.pk/was-bolshevik-revolution-a-coup/.|title=کیا بالشویک انقلاب ایک کُو تھا؟|publisher=|accessdate=30 اگست 2018|date=اپریل 2013|website=|last=گرانٹ|first=ٹیڈ|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232721/http://www.struggle.pk/was-bolshevik-revolution-a-coup/|archivedate=2018-12-24|url-status=dead}}</ref> عبوری حکومت کے پلو پیچھے حکمران طبقہ منظم ہو کر انتقام کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس کا نتیجہ ’’جولائی کے دنوں‘‘ کی رجعت میں نکلا۔ محنت کشوں کو ایک شکست ہوئی۔اس تمام تر صورت حال کی وجہ سے رد انقلاب کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ جنرل کارنیلوف نے انقلاب کو کچلنے کے لیے پیٹروگراڈ کی طرف پیش قدمی کی۔<ref>{{cite web|url=https://chingaree.com/index.php/2017-03-23-15-33-33/80-1917|title=1917ء کا فروری انقلاب۔۔۔ جب تخت گرائے گئے|publisher=|accessdate=6 نومبر 2009|date=مارچ 2017|website=چنگاری|last=ووڈز|first=ایلن|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232723/https://chingaree.com/index.php/2017-03-23-15-33-33/80-1917|archivedate=2018-12-24|url-status=livedead}}</ref> بالشویکوں نے ایک متحدہ فرنٹ کے ذریعے کارنیلوف کو شکست فاش دینے کا نعرہ بلند کیا  ۔ جولائی ہی کے مہینے میں سوویتس کے مظاہرے پر بولشویکس کا غلبہ سامنے آیا جب وہاں بولشویکس کا نعرہ، “دس دولت مند وزیر مردہ باد” گونجنے لگا<ref>{{cite web|url=http://daanish.pk/9958|title=ہم روسی سوویت انقلاب کے سوویں سال میں جی رہے ہیں۔,"|publisher=|accessdate=6 نومبر 2009|date=2017|website=|last=خان,|first=نعمان علی|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232726/http://daanish.pk/9958|archivedate=2018-12-24|url-status=livedead}}</ref>۔
 
==== کامیاب سرکشی ====
سطر 48:
انقلاب کے نتیجے میں یونائٹیڈ سوشلسٹ سوویت یونین کی ریاست وجو د میں آئی، جس نے دنیا کی تاریخ میں مختصر وقت میں شاندار ترقی کی۔ ٹیڈ گرانٹ، نے اپنی کتاب ،'روس انقلاب سے ردِ انقلاب    تک  کے صفحہ نمبر 35 پرسویت یونین کی فتوحات کا ذکر کرتے بیان کیا کہ ، ملین افراد کے قتلِ عام کے باوجود سوویت یونین ہٹلر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا اور 1945 کے بعد ایک مختصر عرصے میں اپنی تباہ و برباد معیشت کو دوبارہ ترقی دے کر دنیا میں دوسری عظیم طاقت بن کر ابھرا۔ 1917 میں ایک پسماندہ، نیم جاگیردارانہ اور ناخواندہ افراد کی ایک بڑ ی آبادی والا ملک سوویت یونین ایک جدید [[ترقی یافتہ ملک]] بن گیا ۔ جس میں دنیا کے چوتھائی حصہ سائنس دان موجود تھے۔ صحت اور تعلیم کا توایسا نظام تھا کہ یا تو یہ ملک مغربی ممالک کے برابر تھا یا اُن سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ اس نے پہلا خلائی سیارہ تیار کیا اور پہلے انسان کو خلا میں پہنچایا۔
 
لینن اکتوبر 1917ءسے اپنی وفات 1924ءتک اس نوزائیدہ انقلابی اشتراکی ریاست کے سربراہ رہے۔ 53 برس کی عمر میں اس دارفانی سے ان کے کوچ کے بعد پارٹی کے جنرل سیکریٹری جوزف اسٹالن ملک کے سربراہ بنے۔ اسٹالن اپنی سخت گیری کی بنیاد پر نہ صرف دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کی تنقید کا ہدف رہتا بلکہ ان دنوں بائیں بازو کے دانشوروں کی تنقید کا بھی نشانہ رہا۔ اس کے آہنی ہتھکنڈوں کے سبب یہ تنقید کچھ بے جا بھی نہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی برس بعد [[پولٹ بیورو]] کے چوبیس ارکان میں سے صرف ایک رکن بچا تھا‘ باقی تئیس جلاوطن‘ قتل یا پھر سائبیریا کی جیلوں میں قید کر دیے گئے تھے۔ لیون ٹراٹسکی دانشور انقلابی کو میکسیکو کی جلاوطنی کے دوران ہی قتل کروا دیا گیا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیمونسٹ پارٹی کو پولسٹ بیورو کا واحد آزاد رکن جوزف اسٹالن خود تھا۔ ہٹلر کو شکست فاش دینے اور روس جیسے زرعی معاشرے میں [[صنعتی انقلاب]] برپا کرنے والے اس شخص کی جب موت ہوئی تو اس کے اثاثہ جات میں کپڑوں کے تین جوڑوں اور دو جوتے کی جوڑیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کوئی بینک اکاﺅنٹ اور نہ ہی کوئی مکان۔  دوسری جنگ عظیم کے ہنگام‘ جب اسٹالن سربراہ مملکت تھا تو اس کا حقیقی بیٹا سوویت یونین کی فوج میں بطور نوجوان لیفٹیننٹ جرمنی کے خلاف اگلے مورچوں پر لڑ رہا تھا۔ جنگ کے دوران جرمن فوج نے اسے گھیرا ڈال کر گرفتار کر لیا اور [[جنگی قیدی]] بنا ڈالا۔ جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر چاہتاتھا کہ اسٹالن کے گرفتار بیٹے کے بدلے وہ اپنے ایک اہم فوجی جرنیل کو آزاد کروالے‘ جو سوویت یونین کی قید میں تھا۔ہٹلر کا یہ پیغام اور جنگی قیدیوں کے باہمی تبادلے کی یہ خواہش لے کر ناربراسٹالن کے پاس پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ”ایک سپاہی کے ساتھ ایک جرنیل کا تبادلہ نہیں کیا جاسکتا“ اگرچہ وہ سپاہی اسٹالن کا اپنا بیٹا تھا‘ وہ ہٹلر کی قید میں جنگ کے دوران اس کے کنسٹریشن کیمپ میں وفات پا گیا۔ اسٹالن کے دور کا خاتمہ 1959ءمیں اس کی موت پر ہوا۔ خردشیف کے سربراہ مملکت بننے سے لے کر 1991ءمیں [[میخائل گورباچوف]] کی سربراہ مملکت بنے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام ہوا<ref>{{cite web|url=http://dailykhabrain.com.pk/2017/10/22/73349/|title=سوویت انقلاب کے سو سال|publisher=روزنامہ خبریں|accessdate=30 اگست 2018|date=اکتوبر 2017|website=|last=|first=|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181224232731/http://dailykhabrain.com.pk/2017/10/22/73349/|archivedate=2018-12-24|url-status=livedead}}</ref>۔
 
== حوالہ جات ==