"اختر رضا سلیمی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 39:
اختررضا سلیمی نے لکھنے کا آغاز 1992ء میں [[روزنامہ جنگ]] میں بچوں کے لیے ایک کہانی لکھ کر کیا۔ شروع میں انہوں نے سماجی، معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور ادبی موضوعات پر مضامین اور کالم بھی لکھے، لیکن آج کل وہ نئی نسل کے ایک اہم شاعر اور ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز [[1997ء]] میں کیا اور بہت جلد شاعری کے میدان میں اپنا سکہ جما لیا۔<ref>[https://archive.is/20120724014640/www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2008\02\16\story_16-2-2008_pg7_47 [[ڈیلی ٹائمز]]، پاکستان]</ref> اختر رضاسلیمی ایسے لوگوں میں سے ایک جن کے ابتدائی شعر ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
 
ان کا پہلا شعری مجموعہ ''اختراع'' 2003ء میں جبکہ دوسرا شعری مجموعہ ''ارتفاع'' 2008ء میں منظر عام پر آیا۔ 2014ء میں ان کی نظموں کا مجموعہ ''خواب دان'' کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ 2009ء میں ان کے یہ دونوں شعری مجموعے ''خوشبو مرے ساتھ چل پڑی ہے '' کے نام سے یکجا صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ناول ''جاگے ہیں خواب میں '' بھی شائع ہوا۔ یہ ناول [[اسلام آباد]] کے عقب میں واقع مارگلہ کے پہاڑی سلسلے کے دوسری طرف بہنے والے دریائے ہرو کے آس پاس رہنے والوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ناول کا نمایاں رنگ آواگون یا تناسخ کا نظریہ ہے، جس کے تحت ناول کا مرکزی کردار ''زمان'' مختلف ادوار میں مختلف شناختیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ادوار [[اشوک اعظم|اشوکِ اعظم]] کے عہد سے لے کر [[انیسویں صدی]] میں انگریزوں کی عمل داری اور پھر سے وہاں سے ہوتے ہوئے جدید زمانے تک سفر کرتے ہیں۔<ref>[http://www.bbc.com/urdu/entertainment/2015/04/150408_novel_1001_titles_zis ایک کتاب ایک ہزار ایک سرورق، ظفر سید، بی بی سی اردو، برطانیہ، 8 اپریل 2015ء]</ref>اس ناول کے اختر صاحب نے اپنے دوست وصی حیدر کی مدد سے ا00ا پینٹنگز کے کور جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔<ref>{{Cite web|url=https://www.mukaalma.com/63189|title=جندر|website=|access-date=2020-07-06|archive-date=2020-07-07|archive-url=https://web.archive.org/web/20200707085620/https://www.mukaalma.com/63189/|url-status=dead}}</ref>2017 میں انہوں نے اپنی مثال آپ ایک اور ناول جندر لکھا۔ شعور کی رو میں بہتا ہوا یہ ناول، خیالات کا ایک دائرہ مکمّل کر کے اپنے نقطۂ آغاز پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ولی خان (اپنی دانست میں) بسترِ مرگ پر لیٹا، موت کا منتظر ہے، خیالات کے گھیرے میں بار بار دور جاتا اور یوں ایک خاص مقام پر ٹھہرا ہوا وہ وقت کے سنگ ہائے میل ماپتا واپس اسی نقطے پر پلٹ پلٹ کر اپنی کہانی کو مکمل کرتا ہے۔
 
== اختر رضا سلیمی کے فن پر مقال ==