"مریخ پر پانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
23 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
25 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.5
سطر 154:
[[فائل:Conical mound in trough on Mars' north pole.jpg|تصغیر|شمالی قطب میں برف اوردھول کی تہ کے ذخیرے]]
 
اپنے حالیہ ماضی قریب میں مریخ نے برف کی مقدار اور تقسیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کو دیکھا ہے۔ زمین پر ایسی تبدیلیوں کو برفانی دور یا برفانی عہد کہا جاتا ہے۔ مریخ کے برفانی دور زمین کے برفانی ادوار سے کافی مختلف ہیں۔ مریخی برفانی دور کے دوران میں قطبین گرم ہو جاتے ہیں، تب پانی کی برف ٹوپیوں کو چھوڑ دیتی ہے اور وسطی عرض البلد میں جا کر ذخیرہ ہو جاتی ہے۔<ref>[http://www.sciencedaily.com/releases/2003/12/031218075443.htm "ہو سکتا ہے کہ مریخ برفانی دور سے گزرتا ہوا نمودار ہوا ہو"۔] ScienceDaily (ایم ایل اے ناسا/جیٹ پروپلشن لیبارٹری)۔ دسمبر 18، 2003ء۔</ref> برفیلی ٹوپی سے نمی پست عرض البلد کی طرف پالے یا برف کے گالوں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ مریخ کے کرۂ فضائی میں بریک مٹی کے زرّات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، پانی کے بخارات ان زرّات میں تکثیف ہو جاتے ہیں اور پھر پانی کے اضافی وزن کی وجہ سے وہ زمین پر گر جاتے ہیں۔ جب غلافی پرت کے اوپر موجود برف واپس کرۂ فضائی میں جاتی ہے تو یہ اپنے پیچھے دھول چھوڑ دیتی ہے جو باقی بچی ہوئی برف کے لیے بطور حاجز کا کم کرتی ہے۔ برفیلی ٹوپی سے جانے والی پانی کی کل مقدار اس کا صرف کچھ فیصد ہی ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ مقدار اس قدر ہوتی ہے کہ پورے سیارے کی سطح کو ایک میٹر تک ڈھک سکتی ہے۔ برف کی ٹوپیوں کی زیادہ تر نمی کا نتیجہ برف و دھول کے آمیزے سے بنے ہوئے موٹے ہموار غلاف کی صورت میں نکلتا ہے۔<ref>مسٹارڈ، جے ؛ و دیگر (2001ء) "موجودہ سطح سے قریب برف کی شناخت سے مریخ پر ہونے والی حالیہ موسمی تبدلیوں کا ثبوت ملا ہے"۔ نیچر 412 (6845): 411–4۔doi:[https://dx.doi.org/10.1038/35086515 10۔1038/35086515]۔ PMID [https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/11473309 11473309]۔</ref><ref>کریسلافسکی، ایم ؛ ہیڈ، جے (2002ء) [http://www.planetary.brown.edu/pdfs/2756.pdf "مریخ:موجودہ عرض البلد پر انحصار کرنے والے پانی کی برف سے زرخیز غلاف کی ہیئت و ارتقا"] {{wayback|url=http://www.planetary.brown.edu/pdfs/2756.pdf |date=20150924074059 }}(پی ڈی ایف)۔ جیوفزیکل ریسرچ خطوط 29 (15): 14–1–14–4۔ Bibcode:[http://adsabs.harvard.edu/abs/2002GeoRL.۔29o.۔14K L۔29o۔۔14K۔] doi:[https://dx.doi.org/10.1029/2002GL015392 10۔1029/2002GL015392]۔</ref> برف سے لبریز یہ چند میٹر موٹا غلاف پست عرض البلد کی زمین کو ہموار کر دیتا ہے، تاہم اس کی ظاہری صورت ناہموار ہوتی ہے۔ گلیشیر بستگی کے ایک سے زیادہ مراحل وقوع پزیر ہوتے ہیں۔<ref>شینی، ڈی ؛ و دیگر (2005ء)"مریخ پر واقع ٹھنڈ پر انحصار کرنے والے پہاڑی تودوں کا ماخذ و ارتقا: پیوونس مونس پنکھے کی شکل کے ذخائر"۔ جریدہ جیوفزیکل ریسرچ 110 (E5): E05001۔ Bibcode:[http://adsabs.harvard.edu/abs/2005JGRE.۔11005001S 2005JGR E۔11005001S]۔ doi:[https://dx.doi.org/10.1029/2004JE002360 10۔1029/2004JE002360]۔</ref> کیونکہ موجود دور کے غلاف میں صرف چند شہابی گڑھے ہی موجود ہیں، لہٰذا اس کو کافی نوجوان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ غلاف نسبتاً حال کے برفانی دور کے دروان بچھا ہے۔
 
برفانی دور مریخ کے مدار اور جھکاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے آتے ہیں، جس کا موازنہ ہم ارضیاتی میلانکووچ چکر سے کر سکتے ہیں۔ مداروی حساب بتاتے ہیں کہ مریخ اپنے محور پر زمین کے مقابلے میں زیادہ ڈگمگاتا ہے۔ زمین کو استحکام اس کے نسبتاً بڑے چاند کی وجہ سے مل جاتا ہے لہٰذا یہ صرف چند درجے تک ڈگمگاتی ہے۔ مریخ اپنا جھکاؤ- جس کو خمیدگی سے جانا جاتا ہے- دسیوں درجے تک بدل سکتا ہے۔ جب یہ خمیدگی زیادہ ہوتی ہے، اس کے قطبین کو زیادہ روشنی اور حرارت براہ راست ملتی ہے؛ اس سے اس کے برفیلی ٹوپیاں گرم ہو جاتی ہیں اور برف کے تصعیدی عمل کی وجہ سے یہ مہین ہو جاتی ہیں۔ ماحول میں تغیر کو بھی اگر جمع کر لیں تو مریخ کے مدار میں یہ انحرافی تبدیلی زمین کے انحراف سے دگنا تک ہو سکتی ہے۔ جب قطب تصعید کے عمل سے گزرتے ہیں تو برف استواء کے قریب دوبارہ جمع ہو جاتی ہے جو ان زیادہ خمیدگی کی نسبت کم شمسی آفتاب زدگی کو پاتی ہیں۔ کمپیوٹر نقول بتاتی ہیں کہ مریخ کے 45 درجے کے جھکاؤ پر برفانی تودوں کو رکھنے والی زمین میں برف کافی جمع ہو جاتی ہے۔<ref>فارگیٹ، ایف ؛ و دیگر (2006ء) "بلند خمیدگی پر ماحولیاتی رسوب سازی کی وجہ سے مریخ پر برفیلے تودوں کی تشکیل"۔۔ سائنس 311 (5759): 368–71۔ Bibcode:[http://adsabs.harvard.edu/abs/2006Sci.۔۔311.۔368F 2006Sci۔۔۔311۔۔368F]۔doi:[https://dx.doi.org/10.1126/science.1120335 10۔1126/science۔1120335]۔ PMID [https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/16424337 16424337]۔</ref> 2008ء میں ہونے والی تحقیق ایمیزونی گلیشیر بستگی کے آخری دور کے دوران مریخ کی سرحد کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی جگہ پر کثیر برفانی مراحل کے بارے میں ثبوت دیتی ہے۔<ref>ڈکسن، جیمز ایل ؛ ہیڈ، جیمز ڈبلیو؛ مارکانٹ، ڈیوڈ آر (2008ء) " ایمیزونی دور کے بعد کے حصّے میں مریخ کی فروعی تقسیم کی سرحد پر برفیلے تودوں کی تشکیل: برفیلے تودوں کی زیادہ موٹائی اور مختلف مراحل کے ثبوت" Geology 36 (5): 411–4۔ doi:[https://dx.doi.org/10.1130/G24382A.1 10۔1130/G24382A 1]۔</ref>
سطر 226:
جتنا کیمرا دیکھ سکتا تھا، اترنے کی جگہ چپٹی تھی، تاہم اس کی وضع قطع 2 تا 3 میٹر کے کثیرالاضلاع ساخت جیسی تھی اور ایسی لگن کے ساتھ بندی ہوئی تھی جو 20 سینٹی میٹر تا 50 سینٹی میٹر گہری ہیں۔ یہ ہیئت مٹی میں موجود برف کے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کے سبب پھیلنے اور سکڑنے کی وجہ سے بنی تھی۔ خرد بین نے دکھایا کہ کثیر الاضلاع ساختوں کے اوپری حصّے گول و چپٹے زرّات سے بنے ہیں، شاید کسی قسم کی مٹی ہے۔<ref>اسمتھ، پی ایچ ؛ تمپاری، ایل کے ؛ آر وڈسن، آر ای ؛ باس، ڈی ؛ بلاینی، ڈی ؛ بوینٹن، ڈبلیو وی ؛ کارسویل، اے ؛ کیٹلنگ، ڈی سی ؛ کلارک، بی سی ؛ ڈک، ٹی ؛ ڈی جانگ، ای ؛ فشر، ڈی ؛ گویٹز، ڈبلیو؛ گن لوسن، ایچ پی ؛ ہیچٹ، ایم ایچ ؛ ہپکن، وی ؛ ہوفمین، جے ؛ ہوڈ، ایس ایف ؛ کیلر، ایچ یو؛ کوناویس، ایس پی ؛ لینج، سی ایف ؛ لیمون، ایم ٹی ؛ میڈسن، ایم بی ؛ مارکیویز، ڈبلیو جے ؛ مارشل، جے ؛ مکائی، سی پی ؛ میلن، ایم ٹی ؛ منگ، ڈی ڈبلیو؛ موریس، آر وی ؛ و دیگر (2009ء) "فینکس کے اترنے کی جگہ پر پانی کا سالمہ"۔ " سائنس 325 (5936): 58–61۔ Bibcode:[http://adsabs.harvard.edu/abs/2009Sci.۔۔325.۔۔58S 2009Sci۔۔۔325۔۔۔58S]۔doi:10۔1126/science۔1172339 (غیر فعال 2015-01-23)۔ PMID [https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/19574383 19574383]۔</ref> کثیر الاضلاع ساختوں کے وسط میں سطح کے کچھ انچ نیچے برف موجود ہے اور اس کے کناروں کے ساتھ برف کم از کم 8 انچ گہری ہے۔ جب برف مریخ کے کرۂ فضائی کا سامنا کرتی ہے تو آہستگی کے ساتھ تصعید ہو جاتی ہے۔
 
برف ریشہ دار بادلوں سے گرتے ہوئے مشاہدہ کی جاچکی ہے۔ کرۂ فضائی میں بادل اس سطح پر بنے تھے جہاں درجہ حرارت لگ بھگ -65 درجے سینٹی گریڈ تھا، لہٰذا بادلوں کو لازمی طور پر کاربن ڈائی آکسائڈ (خشک برف) سے بننے کی بجائے پانی کی برف سے بننا ہوگا کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف بننے کے لیے درجہ حرارت کو -120سینٹی گریڈ جتنا ہونا ہوگا۔ مہم کے مشاہدات کے نتیجے میں اب گمان یہ ہے کہ پانی کی برف (ژالہ) اس جگہ پر اس برس بعد میں جمع ہوگی۔<ref>وائٹ وے، جے اے ؛ کومگیم، ایل ؛ ڈکنسن، سی ؛ کک، سی ؛ النیکی، ایم ؛ سی بروک، جے ؛ پوپوویچی، وی ؛ ڈک، ٹی جے ؛ ڈے وی، آر ؛ ٹیلر، پی اے ؛ پاتھک، جے ؛ فشر، ڈی ؛ کارسویل، اے آئی ؛ ڈالی، ایم ؛ ہپکن، وی ؛ زینٹ، اے پی ؛ ہیچٹ، ایم ایچ ؛ ووڈ، ایس ای ؛ تمپاری، ایل کے ؛ رینو، این ؛ مورس، جے ای ؛ لیمون، ایم ٹی ؛ ڈائرڈن، ایف ؛ اسمتھ، پی ایچ (2009ء) "مریخی پانی کی برف، بادل اوررسوب سازی"۔ سائنس 325 (5936): 68–70۔ Bibcode:[http://adsabs.harvard.edu/abs/2009Sci.۔۔325.۔۔68W 2009Sci۔۔۔325۔۔۔68W]۔doi:10۔1126/science۔1172344 (غیر فعال 2015-01-23)۔ PMID [https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/19574386 19574386]۔</ref> مہم کے درمیان میں سب سے زیادہ درجہ حرارت جو مریخی موسم گرما کے دوران میں درج کیا گیا وہ -19.6 سینٹی گریڈ تھا جب کہ سرد ترین درجہ حرارت -97.7 سینٹی گریڈ تھا۔ لہٰذا اس علاقے میں درجہ حرارت میں پانی کے نقطۂ انجماد(0 درجے سینٹی گریڈ) سے کہیں نیچے رہا۔<ref>[http://www.asc-csa.gc.ca/eng/media/news_releases/2009/0702.asp "سی ایس اے – نیوز ریلیز "] {{wayback|url=http://www.asc-csa.gc.ca/eng/media/news_releases/2009/0702.asp |date=20110705011110 }}۔ Asc-csa.gc.ca۔ جولائی 2، 2009ء۔</ref>
 
=== مریخی کھوجی جہاں گرد ===