داستان

افسانوی ادب کی قدیم ترین صنف

داستان افسانوی ادب کی سب سے قدیم صنف ہے۔اگر یہ کہا جائے تو بجا نہ ہوگا کہ اردوادب میں غزل کے بعد اگر کسی صنف کو مقبولیت ملی ہے تو وہ داستان ہے۔کہتے ہیں کے انسان دور قدیم سے ہی داستان کا دلدادہ رہا ہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھلے ہی اس کی مقبولیت میں کمی ہوگی ہے۔لیکن صدیوں تک اس کا بول بالا رہا ہے۔قصہ انسان کی سرشت میں شامل ہے اور قصہ کہنا اور سننا زمانے قدیم سے بہ حثیت فن رائج ہے۔

اس کی تعریف ہم یوں کر سکتے ہیں کہ"داستان اصناف نثر کی وہ طویل صنف ہے جس میں مافوق الفطری عناطر اور دوسرے لوآزمات کی مدد سے قصہ در قصہ یا داستان در داستان"کہانی بیان کی جائے۔

کہنے کی چیز کو کہانی کہتے ہیں۔

اردو ادب میں داستان ترمیم

اردو کی قدیم داستانوں میں قصہ مہر افروز و دلبر، نو طرز مرصع، عجائب القصص، فسانۂ عجائب، بوستان خیال، داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ اس کے بعد فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی داستانوں میں باغ و بہار، آرائشِ محفل، مذہبِ عشق وغیرہ بہت مشہور ہوئیں۔[1]

اردو داستان کی تاریخ ترمیم

دکن میں اردو داستان ترمیم

اردو میں تقریباً تمام اصناف کی ابتدا دکن میں ہوئی ہے۔ اردو کی پہلی داستان سب رس مانی جاتی ہے۔[2][3] اس کا مصنف ملا وجہی ہے۔ سب رس اردو کی مقبول ترین تمثیلی داستان ہے۔ اس میں حسن و عشق کی کشمکش اور عشق اور دل کے معرکے کو قصے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ طوطی نامہ یا طوطا کہانی دکنی نثر کا دوسرا اہم کارنامہ ہے۔ [4]یہ ایک ترجمہ ہے۔ لیکن اس کا مترجم نامعلوم ہے۔ انوار سہیلی کو عالمی ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس کتاب میں حکومت کے اصول عورت اخلاقی نصیحتوں کو کہانی کے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دکنی میں اس کا ترجمہ منشی محمد ابراہیم بیجاپوری نے کیا۔ قصہ گل و ہرمز دکنی ادب کی اہم داستان ہے۔ اس میں روم کے شہزادے ہرمز اور خوارزم کی شہزادی گل کے عشق کا بیان ہے۔

شمالی ہند میں اردو داستان ترمیم

شمالی ہند میں اٹھارہویں صدی سے قبل کوئی داستان نہیں ملتی۔ اٹھارویں صدی کی داستانوں میں قصہ مہر افروز و دلبر، نو طرز مرصع، ملک محمد و گیتی افروز، عجائب القصص اور جذبِ عشق شامل ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد اردو میں بہترین اور سلیس داستانیں وجود میں آئیں۔ فورٹ ولیم کالج کے داستانوں میں باغ و بہار، داستان امیر حمزہ، نگارخانہ چین، آرائش محفل، سنگھاسن بتیسی، بیتال پچیسی وغیرہ اہم ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کے دور میں کالج کے باہر بھی داستانیں وجود میں آئیں۔ ان داستانوں میں انشا اللہ خان انشا کی سلک گوہر، رانی کیتکی کی کہانی اور مرزا رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب، شگوفہ محبت، گلزار سرور، شبستانِ سرور وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔[5] شمالی ہند میں داستانوں کا دور تقریباً سو برس رہا۔ مغربی علوم کی آمد نے توہمات کو ختم کر دیا۔ اور رفتہ رفتہ داستانوں کا رواج ختم ہوا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "اردو ادب کی کلاسیکی داستانیں - مکمل کتب"۔ اردو گاہ 
  2. سب رس۔ اردو کی ادبی نثر کا پہلا شاہکار
  3. "اردوکا داستانوی ادب:ہندوستانی اساطیراورتہذیب وثقافت-از۔ احمد علی جوہر"۔ 25 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2018 
  4. "اردو نثر کا ارتقاء" 
  5. Urdu-A: داستان کی تعریف