منشی محمد یار خاں رافت ؔ بہرائچی کی پیدائش 1902ء میں صوبہ اترپردیش کے مشہور ادبی شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔ رافت بہرائچی کے والد کا نام معصیب خاں تھا ۔

رافت ؔ بہرائچی
پیدائش1902
شہربہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات27 مارچ 1961ء مطابق9 شوال 1380ھ
بہرائچ،اتر پردیش بھارت
آخری آرام گاہچھڑے شاہ تکیہ قبرستان بہرائچ،اتر پردیش بھارت
پیشہ،شاعری ،ادب سے وابستگی،
زباناردو
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمدینی تعلیم
موضوعنعت ،غزل
نمایاں کامناز و نیاز

حالات اور ادبی خدمات ترمیم

منشی محمد یار خاں رافت ؔ بہرائچی شہر بہرائچ کے مشہور منشی ہونے کے علاوہ مشہور استاد شاعر بھی تھے۔ نعمت بہرائچی اپنی کتاب تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ میں لکھتے ہیں کہ رافت بہرائچی جگر بسوانی کے شاگرد تھے،اور داغ دہلوی کی تقلید میں شعر کہتے تھے۔ آپ کی زبان صاف اور شستہ کلام آراستہ و سنجیدہ ہے۔ آپ مشہور شاعر سید ریاست حسین شوقؔ بہرائچی کے ہمعصر تھے۔[1]انجمن ریاض ادب شہر بہرائچ کے صدر تھے۔ رافت بہرائچی کا ایک شعری مجموعہ ان کی وفات کے تیس سال بعد ان کی دختر جوہی ؔ نے ناز و نیاز کے نام سے شائع کیا جو چار عنوانوں سوز دل،ساز دل سوز ہستی،ساز ہستی پر مشتمل ہے۔ ساز دل قطعات اور سوز ہستی مخمسات پر مبنی ہے جبکہ سوز دل میں رافت صاحب کی دور اول کی غزلیں اور ساز ہستی میں دور سانی کی غزلیں شامل ہیں جنھیں باعتبار ردیف الف تا یا کی ترتیب سے شامل کیا گیا ہے۔[2]

ادبی شخصیات سے رابطہ ترمیم

رافت بہرائچی کے ہمعصر شاعروں میں شوق بہرائچی،کیفیؔ اعظمی، شہرت بہرائچی،شفیع ؔ بہرائچی، وصفیؔ بہرائچی،ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالیؔ ،بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال بہرائچی،بابو سورج نرائن سنگھ آرزوؔ بہرائچی وغیرہ اہم تھے۔

وفات ترمیم

رافت بہرائچی کی وفات 27 مارچ 1961ء مطابق9 شوال 1380ھ کو ہوئی۔ آپ کی تدفین شہر کے مہشور قبرستان چھڑے شاہ تکیہ بہرائچ میں ہوئی۔ جس میں اوام اور خاص نے شرکت کی تھی۔

نمونہ کلام ترمیم

رافت ازل سے ساتھ ہے ناز و نیاز کا

ان کی جدھر خوشی ہے ادھر دیکھتا ہوں میں

[3]

قطعہ

لاکھ رخ پر نقاب ہے پیارے پھر بھی تو لا جواب ہے پیارے
بات رافتؔ کی بے دلیل نہیں آفتات آفتاب ہے پیارے

[3]

بے پردہ تو جو جلوۂ جانانہ ہو گیا حیراں تھا پہلے اب تو میں دیوانہ ہو گیا
دیرو حرم میں آپ کو دیکھ ا تھا جلوہ گر کیا جانے کس طرف دل دیوانہ ہو گیا
خود راز نے نقاب اٹھا دی حیات کی صدر شک طور اب میرا کاشانہ ہو گیا
اب تم ہو اور شمع بھی ہے کر لو فیصلہ پروانہ کس کو دیکھ کے پروانہ ہو گیا
ترے سوا کسی کے نہ آگے جھکے گا سر مرا مزاج عشق میں شاہانہ ہو گیا
بیکار لوگ دیتے ہیں الزام کفر کا میں کچھ سمجھ کے ساکن بتخانہ ہو گیا
ہنس ہنس کے پائے یار پہ رافتؔ نے دیدی جان لو آج ختم عشق کا افسانہ ہو گیا

[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ
  2. ناز و نیاز
  3. ^ ا ب پ ناز و نیاز از رافت بہرائچی