رجم ایک عربی اصطلاح ہے جس کے معنی پتھر پھینکنے (stoning) کے آتے ہیں اور اس اصطلاح سے مراد ایک ایسی سزا کی لی جاتی ہے جس میں جرم کے مرتکب اشخاص کا دھڑ زمین میں گاڑ کر ان پر پتھر برسائے جائیں یہاں تک کے موت واقع ہو جائے۔ رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے۔قرآن میں کسی جرم بشمول زنا کی سزا کے طور (لشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌں) ’’ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جب زنا کریں تو ان دونوں کا لازمی طور پر رجم کر دو ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ‘‘ ملتا ہے؛ ۔

مسلم محققین میں زنا کی سزا رجم کے بارے میں یہ افکار بھی ملتے ہیں کہ شریعت (یعنی قرآن اور سنت) میں قرآن کا درجہ اول ہے اور اگر کوئی بات ان میں متصادم ہو تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے[1]؛ مسلمانوں کا ایمان ہے اور قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ قرآن کے الفاظ کامل ہیں اور ان میں ترمیم ممکن نہیں اور یہ کہ قرآن مکمل طور پر اس حالت میں ہے جیسا کہ حضرت محمد پر نازل ہوا تھا، نا تو اس میں کوئی اضافہ ہوا ہے نا کوئی کمی اور نا ایسا کیا جانا ممکن ہے

آیت 3: وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
ترجمہ: اور کامل ہے بات تیرے رب کی سچائی اور انصاف کے اعتبار سے۔
نہیں کوئی بدلنے والا اس بات کو اور وہی ہے سب کچھ سننے والا، ہر بات جاننے والا [2]

سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ سے ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ

حدیث 1: لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى اللہ عليہ وسلم ـ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا
رجم کی آیت اور دس بار چھاتی چوسنے کی آیت نازل ہوئی تھی اور صحیفہ پر میرے بستر کے نیچے رکھی تھیں پھر جب رسول اللہ کی وفات ہوئی اور ہم صدمے میں تھے تب ایک گھریلو جانور اسے کھا گیا [3]

مسلم محققین اس بات کی وضاحت نسخ (قرآن) کے نظریے سے کرتے ہیں اور ان کے مطابق نسخ تین اقسام کی ہو سکتی ہے اول؛ آیت اور اس کی ہدایت دونوں کی منسوخی۔ دوم؛ آیت کی منسوخی پر اس کی ہدایت کی بقا۔ سوم؛ آیت باقی پر اس کی ہدایت کی منسوخی[4]؛ کہا جاتا ہے کہ چونکہ قرآن ناصرف متعدد افراد کے پاس نقل (صحیفوں کی شکل) میں تھا اور حفظ بھی تھا اور رجم کی آیت کی منسوخی کے بعد کیونکہ یہ حضرت عائشہ کے صحیفے میں لکھا ہوا رہ گیا تھا اور اسی وجہ سے حضرت عثمان یا حضرت ابوبکر کے صحیفوں میں نہیں ملتا اور اسی وجہ سے موجودہ قرآن میں شامل نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے

آیت 4: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں [5]

بین المذاہب کی سطح پر قرآن میں سے کسی آیت کا غائب ہو جانا یا نسخ ہو جانا غیر مسلموں کے سامنے قرآن کی حفاظت اور استحکام کے دعووں کو متزلزل کر دیتا ہے اور اس بات کو نہایت تمسخر اور مضحکہ خیز بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔[6] نا صرف بین المذاہب بلکہ خود اسلام کے ایک بڑے فرقے شیعہ کی جانب سے بھی حضرت عمر کی جانب منسوب صحیح بخاری کی آیت رجم کے بارے میں حدیث کو درون المذہب بنیادوں پر بھی زیر بحث لایا جاتا ہے ۔[7] ؛ نہایت عجیب صورت حال تب دیکھنے میں آتی ہے کہ پھر بعض سنیوں کی جانب سے شیعؤں پر غیر مسلم ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جیسے دیوبندی وغیرہ[8]

رجم کا دفاع ترمیم

شریعت کی رو سے رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ کی جانب سے کیے جانے والے اعمال بھی وحی کا حصہ ہوتے ہیں؛ اور اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت عموماً بیان کی جاتی ہے

آیت 5: ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اس کے بعد اے نبی قائم کیا ہے ہم نے تمھیں شریعت پر دینی معاملہ میں۔
سو تم اسی پر چلو اور نا اتباع کرو ان لوگوں کی خواہشات کا جو علم نہیں رکھتے [9]

اس آیت کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ نے شریعت کو نازل شدہ (وحی یا الہام) قرار دیا ہے [10]؛ شریعت کی فقہی تعریف کے مطابق شریعت قرآن اور سنت سے مل کر بنتی ہے اور صرف سنت (حدیث سے تفریق ضروری ہے) کو شریعت نہیں کہا جا سکتا۔

احادیث میں زنا کی سزا ترمیم

غالباً سب سے مشہور حدیث جو صحیح بخاری سے رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین پیش کرتے ہیں وہ کچھ یوں بیان ہوئی ہے

حدیث 2: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى اللہ عنهما ـ أَنَّ الْيَهُودَ، جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى اللہ عليہ وسلم فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلاً مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى اللہ عليہ وسلم " مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ "۔ فَقَالُوا نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ۔ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ۔ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا، فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا۔ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ ارْفَعْ يَدَكَ۔ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ۔ فَقَالُوا صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ۔ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى اللہ عليہ وسلم فَرُجِمَا۔ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ [11]
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انھیں نافع نے اور انھیں عبد اللہ بن عمر نے کہ یہود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا، رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے یہ کہ ہم انھیں رسوا کریں اور انھیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم موجود ہے۔ تورات لاؤ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد! عبد اللہ بن سلام نے سچ کہا بے شک تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چناں چہ رسول اللہ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا، یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا، اس کو پتھروں کی مار سے بچانا چاہتا تھا [12]۔

محصن یعنی شادى شدہ زانى (صرف نكاح چاہے اس سے خلوت بھى ہوئى ہو سے محصن نہيں ہو جائيگا، اس ميں فقھاء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، بلكہ وطئ اور مجامعت ضرورى ہے، يعنى نكاح كے بعد اگر مجامعت كرنے كے بعد كوئى زنا كرے تو وہ محصن كہلائيگا) کی سزا رجم کے بارے میں مسلم شريف كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

حدیث 3: عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان عورتوں كے ليے راہ نكال دى ہے، كنوارہ كنوارى ( سے زنا كرے تو ) اسے سو كوڑے اور ايك برس تك جلاوطن كيا جائيگا، اور شادى شدہ شادى شدہ عورت ( كے ساتھ زنا كرے ) تو سو كوڑے اور رجم ہو گا [13]۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں؛ اہل علم كا اجماع ہے كہ رجم صرف محصن شادى شدہ كو ہى كيا جائيگا۔ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے؛ کسی بھى مسلمان شخص كا خون بہانا جائز نہيں، مگر تين اسباب ميں سے ايك كى بنا پر يا پھر وہ شادى شدہ ہونے كے بعد زنا كرے[14][حوالہ درکار]۔
صحیح بخاری میں حضرت عمر کی جانب سے رجم کی آیت (دیکھیے قطعہ بعنوان انتقاد بر قرآن) کی موجودگی کے بارے میں دو احادیث درج ہیں جو کتاب المحاربین میں بیان ہوئی ہیں۔

حدیث 4: حضرت عمر نے کہا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں زیادہ وقت گذر جائے اور لوگ یہ کہنے لگیں کہ کتاب اللہ سے رجم نہیں ہے اور وہ اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں جسے اللہ نے نازل کیا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ رجم کا حکم اس شخص پر فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا اگر صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہو یا حمل ہو یا خود اقرار کرے [15]۔

دوسری حدیث حضرت عمر کے آخری حج کے قریب زمانے سے آتی ہے اور یہ بالائی حدیث سے مفصل واقعہ بیان کرتی ہے؛ حدیث طویل ہے جسے اصل ربط پر جا کر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

حدیث 5: یا امیر المومنین کیا آپ فلاں سے تفتیش کریں گے کہ جو کہے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا کیونکہ ابو بکر کی بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر مکمل ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ (بیان جاری: حضرت عمر نے لوگوں سے خطاب کر کہ انہیں ڈرانے کا کہا جس پر حضرت عوف نے ایسا نا کرنے کا مشورہ دیا کہ حج پر کم سمجھ لوگ بھی جمع ہیں اور حضرت عمر کی بات (اپنی سمجھ کے مطابق) غلط انداز میں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں؛ حضرت عمر نے خطبہ میں انتباہ دیا کہ جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی تو اس کے لیے مجھ سے غلط بات منسوب کرنا جائز نہیں ہے) ۔۔۔۔۔۔۔ کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ بھی آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد کیا تھا۔ رسول اللہ نے خود رجم کرایا، پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یونہی بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ دعویٰ نا کر دے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں جسے اللہ نے نازل کیا تھا [15]۔

انتقاد بر قرآن ترمیم

انتقاد بر قرآن اور انتقاد بر اسلام

قرآن سے رجم کی آیت کے غائب ہو جانے والی بات کہنا کوئی معمولی بات ہرگز نہیں کہی جا سکتی اور نا ہی قرآن کے ناقابل تحریف ہونے اور کامل کلام الٰہی پر جوں کا توں بلا کسی اضافہ یا کمی کے موجود ہونے پر غیر متزلزل ایمان کی اسلامی شرط کے ساتھ اس قسم کی بات کی تشریح نسخ (قرآن) کی دلیل یا تاویل میں ہو سکتی ہے۔[16] رجم کا دفاع کرنے والے مسلم محققین تو ہر صورت یہ بات ثابت کرنے پر ضرور دیتے ہوئے نظر آتے ہی ہیں کہ رجم کی آیت نازل ہوئی تھی اور اس سلسلے میں جلیل القدر صحابہ اکرام (حضرت عائشہ و حضرت عمر فاروق اور دیگر) سے منسوب احادیث بھی پیش کرتے ہیں؛ لیکن یہ شاید واحد نہیں تو ان چند نایاب مواقع میں سے ایک موقع ہے کہ جب اسلام پر تنقید کرنے والے غیر مسلم اس آیت کے قرآن سے غائب ہوجانے والی بات کے حق میں (رجم کی آیت کے نزول کا دفاع کرنے والے) مسلم علما کے مکمل ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ مسلم علما نسخ کی وجود کو ثابت کرنے کے لیے خود قرآن کی ایک آیت پیش کرتے ہیں

آیت 6: مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
نہیں منسوخ کرتے ہیں ہم کسی آیت کو یا بُھلا دیتے ہیں کسی آیت کو تو عطا کرتے ہیں بہتر اس سے یا ویسی ہی۔ کیا نہیں جانتے تم کہ بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے [17]۔

مسلم محققین کے مطابق مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے فرمان میں سے کسی آیت کو بھلا (نسخ) کر سکتا ہے اور اس سے بہتر ہدایت نازل کرتا ہے جو نسخ کی گئی ہو۔ اب یہاں منطقی طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آخر وہ نسخ ہونے والی آیت تھی کیا؟ جس کو منسوخ کیا گیا۔ جب حضرت عمر کے بارے میں حدیث منسوب ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے تو ظاہر ہے کہ اس آیت کے الفاظ کو تلاش کیا جانا بھی اہم ہے۔ موطاء امام مالک میں اس منسوخ شدہ آیت کے بارے میں آتا ہے

الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ
شیخ اور شیخہ (یعنی بڑی عمر کا مرد اور عورت) اگر زنا کرے تو انھیں رجم کرو [18]۔

غیر مسلموں کی جانب سے متعدد سوالات اس بارے میں اٹھائے جاتے ہیں [19]؛ اول تو یہ کہ اگر نسخ کی آیت کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس منسوخ شدہ آیت کے بدلے میں کونسی بہتر (یا ویسی ہی) آیت نازل ہوئی؟ دوم یہ کہ آیا یہ آیت منسوخ ہونے کے بعد کوڑوں کی سزا کی آیت نازل ہوئی؟ ظاہر ہے کہ ایسا ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کوڑوں کی آیت کو جو رجم کی مذکورہ بالا آیت کے بعد آئی، قرآن کی رو سے بہتر تسلیم کیا جائے گا۔ پھر اس آیت میں شیخ یا شیخیہ کی قید یا غیر شادی شدہ یا نوجوان کے ذکر کے بغیر محض زنا کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟ قطعہ بنام احادیث میں زنا کی سزا میں یہودیوں سے متعلق جو حدیث صحیح بخاری کی درج ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں یہودیوں نے تنسیخ و ترامیم نہیں کیں اور وہ حضرت محمد کے زمانے میں بھی رجم کی آیات رکھتی تھی جبکہ قرآن میں وہ آیت نہیں جو رجم کے بارے میں نازل ہوئی تھی؛ تو پھر ترمیم کس کتاب میں ثابت ہوئی؟ تورات یا قرآن؟ [20]۔ رجم سے متعلقہ (حاضر و غائب) دونوں آیات میں (اگر بالفرض آیت منسوخہ کے الفاظ کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی) میں ہی شادی شدہ (محصن) و غیر شادی شدہ (عفیف) کی کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی کیونکہ حاضر سورت النور کی آیت 2 میں الفاظ زانی اور زانیہ کے ہیں [21] اور غائب نسخ شدہ آیت میں الفاظ بمطابق موطاء امام مالک کے شیخ اور شیخیہ کے ہیں [18]۔ رجم سے متعلقہ (حاضر و غائب) دونوں آیات (اگر بالفرض آیت منسوخہ کے الفاظ کو درست تسلیم کر لیا جائے تب بھی) ان میں شادی شدہ (محصن) و غیر شادی شدہ (عفیف) کی کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی کیونکہ حاضر سورت النور کی آیت 2 میں الفاظ زانی اور زانیہ کے ہیں [21] اور غائب نسخ شدہ آیت میں الفاظ بمطابق موطاء امام مالک کے شیخ اور شیخہ کے ہیں [18]؛ شیخ اور شیخہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ بات محصن یا عفیف (کنوارے پن) کی ہو رہی ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد (شیخ اور شیخہ) بھی غیر شادی شدہ ہو سکتے ہیں۔

تجاوب بر انتقاد ترمیم

مسلم علما اور محققین پر قرآن کی حفاظت پر اٹھائے جانے والے سوالات کا معاملہ اس قدر نازک ہے کہ اس پر رجم کا دفاع اور رجم کا انکار کرنے والے دونوں افکار رکھنے والے گروہوں کی جانب سے نہایت دقیق تجاوب پیش کیا جاتا ہے۔

رجم کے اقراری ترمیم

وہ مسلم محققین جو رجم کا دفاع کرتے ہیں ان کی جانب سے پیش کیا جانے والا تجاوب بنیادی طور پر قرآن میں نسخ کے نظریے پر قائم کیا جاتا ہے [22] جس کی تین اقسام بتائی جاتی ہیں (دیکھیے قرآن میں زنا کی سزا) اور ان تین اقسام کے نسخ میں سے رجم کی آیت، قسم دوم میں شمار کی جاتی ہے اور اپنی اس بات کی دلیل کے لیے نسخ سے متعلق قرآن کی مذکورہ بالا آیت (البقرہ آیت 106 / مضمون آیت 6) پیش کی جاتی ہے[17]۔ اس موقف پر اٹھنے والے چند بنیادی سوالات کا ذکر مذکورہ بالا قطعے (انتقاد بر قرآن) میں کیا گیا ہے اور یہاں انھیں عددی شکل میں درج کی جا رہا ہے؛ جن میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ نسخ ہونے والی آیت کے بدل میں (البقرہ آیت 106 کی رو سے ) کونسی آیت نازل ہوئی؟

غیر مسلموں کی جانب سے متعدد سوالات اس بارے میں اٹھائے جاتے ہیں [19]؛

  1. اول تو یہ کہ اگر نسخ کی آیت کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس منسوخ شدہ آیت کے بدلے میں کونسی بہتر (یا ویسی ہی) آیت نازل ہوئی؟
  2. دوم یہ کہ آیا یہ آیت منسوخ ہونے کے بعد کوڑوں کی سزا کی آیت نازل ہوئی؟ (اگر ایسا ہے تو پھر اس کوڑوں کی آیت کو جو رجم کی مذکورہ بالا آیت کے بعد آئی، قرآن کی رو سے بہتر تسلیم کیا جائے گا)۔
  3. پھر اس آیت 1 میں شیخ یا شیخہ کی قید یا غیر شادی شدہ یا نوجوان کے ذکر کے بغیر محض زنا کا لفظ کیوں استعمال ہوا؟
  4. قطعہ بعنوان احادیث میں زنا کی سزا میں یہودیوں سے متعلق جو حدیث (2) صحیح بخاری کی درج ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں یہودیوں نے تنسیخ و ترامیم نہیں کیں اور وہ حضرت محمد کے زمانے میں بھی رجم کی آیات رکھتی تھی جبکہ قرآن میں وہ آیت نہیں جو رجم کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟
  5. ترمیم کس کتاب میں ظاہر ہوئی؟ تورات یا قرآن؟ [20]۔

رجم کے انکاری ترمیم

رجم کی سزا قرآن سے ثابت ہونے کا انکار کرنے والے مسلم محققین اپنی دلیل میں یوں بیان کرتے ہیں کہ صحیح بخاری میں حضرت عمر کی جانب سے رجم کی آیت کی موجودگی کے بارے میں جو دو احادیث (قطعہ بعنوان احادیث میں زنا کی سزا حدیث 4 اور 5) درج ہیں تو پھر اس آیت کی قرآن میں غیر موجودگی کی کوئی وجہ نہیں بنتی؛ دوسری حدیث (عدد 5) میں حضرت عمر کے آخری حج کے قریب زمانے کا ذکر بھی آتا ہے اور یہ حدیث 4 سے مفصل واقعہ بیان کرتی ہے جبکہ اس موقع پر بات کو غلط انداز میں پھیلانے والے افراد کی موجودگی بھی اسی حدیث میں بیان ہوئی ہے جس کا تذکرہ اس حدیث کی ابتدائی عبارت میں موجود ہے۔ رجم سے انکاری مسلم محققین کہتے ہیں کہ دونوں احادیث میں ایسے فرد کی بات ہوئی ہے جو سنگساری سے انکار کرے گا اور دونوں احادیث میں اُس (حضرت عمر کے ) زمانے کی نہیں بلکہ آئندہ زیادہ وقت گذر جانے والے زمانے کی بات ہوئی ہے گویا احادیث کے فحاشی (زنا) کے بارے میں تنازع نمودار ہونے کے وقت میں نمودار ہونے کا امکان قوی ہے اور ان احادیث کا مقصد سنگساری کے خلاف ایک سخت موقف پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں آیت نازل ہونے اس کی تلاوت کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ صرف آیت کے قرآن میں نا ہونے کا ذکر ہے۔ مزید تحقیق کی جائے تو بعد میں ایک عبارت ایسی بھی مل جاتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نسخ شدہ آیت رجم تھی (قطعہ بعنوان انتقاد بر قرآن) اور پھر اس کے بعد اب ایک کام رہ جاتا تھا کہ اس آیت کو قرآن میں شامل کر دیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نا ممکن تھا (اور ہے) کہ اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالٰی نے لیا ہے (قطعہ بعنوان قرآن میں زنا کی سزا ؛ آیت 4)۔ مزید یہ کہ لوگوں کے لیے بے حیائی کو روکنے کی خاطر اس قسم کی سخت سزا کے بارے میں پھیلائی جانی والی نسخ کی باتوں کو برداشت کرنا تو ممکن تھا لیکن براہ راست قرآن میں اس اضافہ کو کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا رجم کے انکاری گروہ کے مطابق گو ایسا مقام آ گیا کہ ان احادیث کو رد کرنا ممکن نا رہا (یا انھیں قبولیت حاصل ہو گئی) اور انھوں نے مستند کتب میں جگہ بنا لی پھر ان کی تاویل کے لیے قرآن میں نسخ کا نظریہ استعمال ہونے لگا اور اس کی تاویل خود قرآن سے نکالنے کی کوشش کی جانے لگی (رجوع مضمون آیت 6) اور کہا کیا کہ یہ نسخ تلاوت ہے نا کہ نسخ عمل (رجوع قطعہ بعنوان قرآن میں زنا کی سزا ؛ نسخ کی قسم دوم)۔[23]

احصان كى کی شرائط ترمیم

احصان شادی شدہ زانی کو کہتے ہیں جس کے لیے رجم کی سزا مخصوص کی گئی ہے۔ احصان ہونے کی سات شرائط ہیں۔

1۔ عورت كى شرمگاہ ( قبل ) ميں وطئ كرنا

اس شرط ميں كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" غیر شادى شادہ اور شادى شدہ كے بدلے سو كوڑے اور رجم ہے "

اور ثيابۃ: يعنى شادى شدہ ہونا قبل ميں وطئ سے حاصل ہوتا ہے، اس ليے اسا كا معتبر ہونا ضرورى ہے اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جماع كے بغير نكاح سے محصن ہونا ثابت نہيں ہوتا، چاہے اس ميں خلوت بھى ہوئى ہو، يا قبل كے بغير وطئ ہوئى ہو يا دبر ميں وطئى ہوئى ہو يا پھر كچھ نہ ہوا ہو تو اسے محصن نہيں كہا جائيگا؛ كيونكہ اس سے عورت ثيب نہيں ہوتى اور نہ ہى وہ كنوارہ پن سے خارج ہوتى ہے، جن كى حد سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى ہے، اس ليے كہ حديث ميں يہى وارد ہے۔

اور وطئ ميں يہ ضرورى ہے كہ حشوہ يعنى عضو تناسل كا اگلا حصہ عورت كى شرمگاہ ميں غائب اور داخل ہو؛ كيونكہ يہ وطئ كى حد ہے جس كے ساتھ وطئ كے احكام كا تعلق ہے۔

2۔ وہ نكاح ميں ہو؛ كيونكہ نكاح كو احصان كا نام ديا جاتا ہے؛ اہل علم ميں كوئى اختلاف نہيں كہ زنا اور وطئ شبہ سے وطئ كرنے والا محصن يعنى شادى شدہ شمار ہو اور نہ ہى ہمارے علم ميں ہے كہ لونڈى سے وطئ كرنے والا شادى شدہ كہلاتا ہو، اس كے متعلق كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ يہ نكاح نہيں اور نہ ہى اس سے نكاح كے احكام ثابت ہوتے ہيں۔

3۔ وہ نكاح صحيح ہو، تیسری شرط یہ ہے کہ اس کا محض نکاح ہی نہ ہوا ہو‘ بلکہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ بھی ہو چکی ہو صرف عقد نکاح کسی فرد کو محصن یا عورت کومحصنہ نہیں بنا دیتا کہ زنا کے ارتکاب کی صورت میں ان کو رجم کیا جائے‘ اس شرط پر بھی اکثر فقہا متفق ہیں‘ مگر امام ابو حنیفہ اور امام محمد اس میں اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ مرد یا عورت کو محصن صرف اسی صورت میں قرار دیا جائے گا جبکہ نکاح اور خلوت صحیحہ کے وقت زوجین آزاد‘ بالغ اور عاقل ہوں‘ اس مزید شرط سے جو فرق پڑتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر مرد کا نکاح ایسی عورت سے ہوا ہو جو لونڈی ‘ نابالغ یا مجنون ہو‘ تو خواہ وہ اس حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر بھی ہو چکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کا مستحق نہ ہوگا‘ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے کہ اگر اس کو اپنے نابالغ ‘ مجنون یا غلام شوہر سے مباشرت کا موقع مل بھی چکا ہو‘ پھر بھی وہ مرتکب زنا ہونے کی صورت میں رجم کی مستحق نہ ہوگی۔

4۔ آزادى ہو، ابو ثور رحمہ اللہ كے علاوہ باقى سب اہل علم كے ہاں يہ شرط پائى جاتى ہے۔

5۔ بالغ ہو۔

6۔ عاقل ہو،اگر بچے اور مجنون نے وطئ كر لى اور پھر بالغ يا عقلمند ہو گيا تو وہ محصن شمارنہيں ہو گا، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے اور امام شافعى كا مسلك بھى يہى ہے۔

7۔ وطئ كحالت ميں ان دونوں ميں كمال پايا جائے، وہ اس طرح كہ عقلمند اور آزاد مرد عقلمند اور آزاد عورت سے وطئ كرے، امام ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب كا قول يہى ہے۔

اور امام مالك كہتے ہيں: اگر ان دونوں ميں سے ايك كامل ہو تو وہ محصن ہو گا، ليكن بچہ نہيں جب وہ كسى بڑى عورت سے وطئ كرے تو وہ اسے محصن نہيں كريگا[24]

حوالہ جات ترمیم

  1. Khalid Zaheer: About the verse of stoning آن لائن موقع
  2. قرآن؛ سورت الانعام (6) آیت 115 اردو ترجمہ کا مآخذ موقع
  3. سنن ابن ماجہ حدیث 2020 عربی موقع
  4. رجم اور نسخ کا بیان انگریزی موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ansar.org (Error: unknown archive URL)
  5. قرآن: سورت الحجر (15) آیت 9
  6. Atheism Vs Christianity Forum پر قرآن اور رجم پر گفتگو[مردہ ربط]
  7. Answering Ansar ایک شیعہ موقع پر رجم کی گفتگو آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ answering-ansar.org (Error: unknown archive URL) اور قرآن کی حیثیت پر مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ answering-ansar.org (Error: unknown archive URL)
  8. Creed of the shia; explained پیڈی ایف فائل (انگریزی)
  9. قرآن سورت الجاثیہ (45) آیت 18
  10. Who ordered rajm? The Majlis.net آن لائن موقع
  11. صحیح بخاری: کتاب؛ المناقب باب؛ قول اللہ تعالی حدیث؛ 3678 عربی متن
  12. محمد بن اسماعیل بخاری (اردو ترجمہ: مولانا محمد داؤد راز)۔ صحیح بخاری۔ مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند 2004 
  13. صحیح مسلم حديث نمبر ( 1690 )
  14. صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1809
  15. ^ ا ب صحیح بخاری: کتاب المحاربین حدیث 6917 اور 6918 عربی موقع
  16. قرآن میں نسخ کے بارے میں ایک فتویٰ آن لائن موقع آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ askimam.org (Error: unknown archive URL)
  17. ^ ا ب قرآن: سورت البقرہ آیت 106
  18. ^ ا ب پ موطاء امام مالک 1512 عربی موقع
  19. ^ ا ب Collection of the Quran آن لائن موقع
  20. ^ ا ب Islam and Stoning آن لائن موقع
  21. ^ ا ب
  22. دارالافتاء کی جانب سے نسخ پر ایک فتویٰ آن لائن ربط آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ askimam.org (Error: unknown archive URL)
  23. The preservation of the noble Quran آن لائن مضمون آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ answering-christianity.com (Error: unknown archive URL)
  24. المغنى ابن قدامہ ( 9 / 41 ) اور مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 224 ) بھى ديكھيں۔