رزمیہ گلگامش میسوپوٹیمیا کی ایک رزمیہ نظم ہے جو ادب کی اولین نظموں میں سے ایک ہے۔ گلگامش کی ادبی تاریخ اوروک کے شاہ گلگامش کے متعلق لکھی گئی پانچ سمیری نظموں سے شروع ہوتی ہے۔ ان میں چار نظمیں عکادی زبان میں مشترکہ رزمیہ کے بنیادی مآخذ کے طور پر استعمال کی گئیں۔

عکادی زبان میں نسخہ رزمیہ گلگامش

کہانی کا ماخذ ترمیم

اس رزمیہ کی کہانی کے مطابق گلگامش ریاست ارک کا بادشاہ تھا۔ اس نے جو معرکئے سر کيے انھوں نے اسے خدائی کے درجے پر فائز کر دیا اور انہی کے طفیل نسل در نسل صدیوں تک چلتی رہنے والی نظم تخلیق ہوئی۔ اگر اس رزمیہ کے بعض حصے ایسے ہیں جو 2100 سے 2000 قبل مسیح میں بھی موجود تھے۔ اکادی زبان میں یہ رزمیہ بہت بعد بابلی عہد میں منظر عام پر آئی۔ اس کی بعض وسط بابلی (اندازہ 1250 قبل مسیح) اور نو آشوری (750 تا 612 قبل مسیح) شکلیں بھی سامنے آئيں ہیں۔

اس رزمیہ کی عبارت میں مسلسل کانٹ چھانٹ ہوتی رہی اور اس کا کوئی نسخہ اس وقت موجود نہیں۔ اس نظم کا جو ترجمہ موجود ہے وہ مختلف مآحذ کا ملغوبا ہے۔ اگرچہ بابلی گلگامش نے کئی سمیری حکایات سے اکتساب کیا ہے، دونوں ماخذ میں کئی بڑے اختلافات بھی موجود ہیں۔ سمیری حکایات میں انکیدو گلگامش کا نوکر دکھایا گیا ہے۔ جنگلی انسان یا اس کا دوست نہیں۔ تاہم اس داستان کو سات دن اور سات رات پر مشتمل چھ ادوار میں تقسیم کرنے کی ذمہ دار بابلی حکایت ہے۔ اس سب ادوار میں گلگامش کی شخصیت ایک نؤی تبدیلی سے گزرتے نظر آتی ہے۔

کہانی ترمیم

بابلی حکایت میں گلگامش کو ارک کے ایک طاقتور اور نیم لافانی بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا جو اپنی رعایا سے بڑی سختی سے پیش آتا ہے۔ آسمانی دیوتا کو لوگوں کے حال پر رحم آتا ہے اور وہ ارورو دیوی ک وحکم دیتا ہے کہ وہ مٹی سے ایک جنگلی انسان تیار کرے تا کہ وہ بادشاہ کی توجہ بٹا سکے۔ یہ شخص جس کا نام انکیدو لکھا ہے۔ وہ گلگامش کی طاقتکو للکارتا ہے لیکن اس سے شکست کھا کے اس کا بہت گاڑصا دوست بن جاتا ہے۔ اور پھر دونوں مل کر بہت سی مہمات سر کرتے ہیں۔ ایک مہم کے دوران انھوں نے ایک مقدس جنگل میں اگے دیودار کے درخت کو کرانا ہوتا ہے جس کی حفاظت ایک عفریت ہمبابا کو ہلاک کر دیتے ہیں لیکن ہوتا کیا ہے کا اس کامیابی سے ان میں غرور آ جاتا ہے اور وہ آسمانی بیل کو مار کر خدائے اشتر کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں جو انکیدو کو ہلاک کر دیتا ہے۔ گلگامش اپنے یار کی جدائی سے بہت دلبردشتہ ہوتا اور بفائے دوام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ تو اسے نہیں ملتی البتہ عقل اس کے ہاتھ ضرور آ جاتی ہے۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

بیرونی وابط ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. کوامے انتھونی اپیاہ اور ہنری لوئی گیٹس جونئیر، عالمی ثقافت کی لغت، صفحہ 273، 274، مشعل بک، لاہور