رفاعہ نام،باپ کا نام زید تھا ،نسباقبیلۂ جذام سے تعلق رکھتے تھے۔

حضرت رفاعہ ؓبن زید
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

اسلام ترمیم

خیبر سے کچھ دنوں پہلے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر اپنے قبیلہ کے چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ آکر مشرف با سلام ہوئے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک غلام مدعم پیش کیا ،خیبر کے موقع پر شہید ہوئے۔ [1]

وطن کی واپسی اور تبلیغ اسلام ترمیم

قبول اسلام کے بعد کچھ دنوں تک قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے [2]حصول تعلیم کے بعد آنحضرتﷺ نے ایک نامۂ مبارک دیکر انھیں ان کے قبیلہ میں تبلیغ کے لیے بھیجا نامۂ مبارک کا مضمون یہ تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط محمد رسول اللہ کی جانب سے رفاعہ بن زید کو دیا جاتا ہے، میں ان کو ان کے قبیلہ میں اور جو اس میں داخل ہوں ان کی طرف بھیجتا ہوں تاکہ وہ انھیں خدا اوررسول کی طرف بلائیں، جو پیش قدمی کریگا وہ حزب اللہ کا ایک فرد ہوگا، اورجو لوگ پیچھے ہٹینگے ان کے لیے دو مہینہ کی مہلت ہے، رفاعہ یہ خط لے کر وطن پہنچے اور چند دنوں میں ان کی کوششوں سے ان کا پورا قبیلہ مشرف باسلام ہو گیا۔ [3]

غلطی سے حملہ ترمیم

ابھی ان کا قبیلہ مسلمان ہوا تھا کہ دوسری طرف سے زید ؓبن حارثہ نے جو دوسری مہم پر بھیجے گئے تھے پہنچ کر اس پر غلطی سے حملہ کر دیا، کچھ لوگ قتل ہوئے اورکچھ گرفتار ،رفاعہ اپنے قبیلہ کے وفد کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں فریاد لے کرآئے اوروہ خط پیش کیا آپ نے فرمایا جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اب مقتولین کے بارہ میں کیا کیا جائے؟ اس وفد کے ایک رکن ابو زید نے کہا قیدیوں کو رہائی کا حکم صادر فرمایا جائے،باقی جو لوگ قتل ہوئے، ان کا خون معاف کرتے ہیں، اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا، ابو زید کی رائے صائب ہے اورحضرت علیؓ کو زید ؓبن حارثہ کے پاس بھیجا کہ وہ سب قیدیوں کو رہا کر دیں ؛چنانچہ تمام قیدی رہا کر دیے گئے اورجس قدر مال لوٹا گیا تھا سب واپس کر دیا گیا۔ [4]

حوالہ جات ترمیم

  1. (اسد الغابہ:2/181)
  2. (ابن سعد،جلد7ق2:148)
  3. (اسد الغابہ:2/181)
  4. (ابن سعد،جلد7،ق2،148)