سلطان علی مشہدی

خط نستعلیق کا استاد اور مشہور خطاط

مولانا نظام الدین سلطان علی مشہدی – نظام الدین سلطانی (پیدائش: 1435ء – وفات: 1519ء) اسلامی خطاطی کے نامور اور ممتاز ترین خطاطین میں سے ہیں۔ مولانا نظام الدین خط نستعلیق کا مشہور ترین استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اپنے عہد میں مختلف خطابات سے سرفراز ہوئے۔ مولانا کو سلطان الخطاطَین، قِبلۃ الکتاب اور زبدۃ الکتاب کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

سلطان علی مشہدی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1435ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مشہد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1519ء (83–84 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مشہد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ مولانا اظہر تبریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص سلطان محمد خنداں [1]،  میر علی ہروی ،  سلطان محمد نور [1]  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ خطاط ،  شاعر ،  کاتب ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

مولانا نے اپنی منظوم خودنوشت میں اپنے حالات مفصل تحریر کیے ہیں۔ پیدائش مشہد میں ہوئی۔ سات سال کی عمر میں والد کی وفات ہو گئی تو حالتِ یتیمی میں تعلیم و تربیت کا بار والدہ کے سر پر آگیا۔ بیس سال کی عمر میں مولانا نے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ خوشنویسی کا بہت شوق تھا، یہاں تک کہ صبح سے شام تک تختی پر مشرق کرتا رہتا تھا۔ اتفاق سے میر مفلس ایک عارفِ زمانہ کا اُدھر سے گذر ہوا تو اُس نے تختی پر حروف تہجی لکھ دیے۔ اِس طرح خوشنویسی کی طرف مزید رغبت بڑھ گئی۔ بعض روایات میں ہے کہ مولانا کو خواب میں حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ انھوں نے ہاتھ میں قلم دیا اور لکھنا سکھایا اور خط میں کمال حاصل کیا۔ بتدریج اِن کی شہرت پھیل گئی۔ شاگرد اصلاح خط کے لیے آنے لگے مگر یکایک مولانا کو خیال آیا کہ ابھی تک خط میں پختگی پیدا نہیں ہوئی، لہٰذا ایک مدت تک گوشہ نشینی اختیار کرلی اور خط کی مَشق کرتا رہا۔[2]

دربار ہرات تک رسائی ترمیم

مولانا مشہدی کے خط کی شہرت ہرات پہنچی تو ہرات کے تیموری سلطان سلطان حسین مرزا بایقرا نے اِن کو مشہد سے ہرات طلب کر لیا اور اپنے کتب خانے میں کتابت پر مامور کر دیا۔ سلطان حسین مرزا بایقرا کے پاس مولانا مشہدی نے بڑے عیش و آرام سے زندگی بسر کی۔ ہرات میں مولانا عبدالرحمن جامی جیسے فاضل اجل اور امیر علی شیر نوائی جیسے مدبر کی رفاقت اور صحبت میسر آئی۔ مولانا مشہدی حسن صورت اور حسن سیرت دونوں سے متصف تھا۔ مرد پرہیزگار اور درویش منش تھا۔ شاعری پر قدرت حاصل تھی مگر شعرگوئی کی جانب خاص توجہ نہیں دی۔[3]

بحیثیت خطاط ترمیم

خطاطی میں بعض مصنفین مولانا کو اظہر تبریزی کا بلاواسطہ شاگرد بتاتے ہیں مگر دوسرے لوگ اِن کو اظہر تبریزی کی بجائے اظہر کے شاگرد حافظ حاجی محمد کا شاگرد بتاتے ہیں۔ علامہ ابوالفضل علامی کی رائے یہ ہے کہ مولانا مشہدی نے اظہر تبریزی سے بالمشافہ تعلیم حاصل نہیں کہ بلکہ بالواسطہ اُن کی تحریرات کو سامنے رکھ کر خط کی مشق کی ہے۔ فن خطاطی پر مولانا سلطان مشہدی نے ایک رسالہ ’’ صراط الخطوط‘‘ تصنیف کیا ہے۔ فن خوشنویسی میں مولانا مشہدی کے مرتبے کو میر علی ہروی نے مدار الخطوط میں یوں بیان کیا ہے کہ: ’’سلطان علی اُصول پسندی میں خواجہ جعفر تبریزی کے ہم پلہ ہیں اور صفائے کتابت میں اظہر تبریزی کے مانند ہیں‘‘۔ خوشنویسوں میں کوئی اتنا خوش قسمت نہیں گذرا جتنا سلطان علی مشہدی۔ کتابت کی وجہ سے بڑے عروج پر پہنچے۔ تمام مؤرخ اور تمام کتب ہائے تذکرہ میں اُن کی تعریف کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے اُن کی وجہ شہرت اُن کے کثیر تلامذہ ہونے کی بیان کی ہے۔ یاقوت مستعصمی کی طرح سلطان علی مشہدی کے بھی چھ شاگرد اُستادِ زمانہ کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ سلطان محمد نور‘ محمد ابریشمی‘ سلطان محمد خنداں اور زین الدین محمود زیادہ مشہور ہیں۔ اِن سب شاگردوں کے آثارِ قلم بہت ملتے جلتے ہیں۔ آخری ایام تک فن خطاطی کی مَشق جاری رکھی۔[4]

ٖخطاطی کے نسخہ جات ترمیم

مولانا مشہدی کے خطاطی کے فن پاروں کے آثار اتنے زیادہ ہیں کہ بعض لوگ اِن کو درست تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہرات میں شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری کے مزار کا کتبہ، عمر خیام کی رباعیات، مولانا جامی کی مثنوی تحفۃ الاحرار، نظامی گنجوی کی مثنوی مخزن الاسرار، دین حافظ، غرلیاتِ شاہی ترکی وغیرہ مولانا مشہدی کی لکھی ہوئی کتب ہیں جو آج ترکی اور ایران کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔[5]

وفات ترمیم

مولانا مدت العمر ہرات اور مشہد میں مقیم رہے۔ سلطان حسین مرزا بایقرا کے ہرات طلب کرنے کے بعد ہرات میں مستقل مقیم ہو گئے تھے۔ سلطان حسین مرزا بایقرا کی وفات کے بعد دوبارہ مشہد واپس آگئے تھے اور وہیں سنہ 1519ء میں تقریباً 84 سال کی عمر میں وفات پائی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. https://doi-org.wikipedialibrary.idm.oclc.org/10.1093/gao/9781884446054.article.T082297
  2. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 161۔
  3. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 161- 162۔
  4. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 162۔
  5. محمد سلیم: تاریخ خط و خطاطین، صفحہ 162۔