ویدک دور میں برصغیر کے مذہب کے لیے 'سناتن دھرم' نام ملتا ہے۔ 'سناتن' کا مطلب ہے - ابدی یا 'ہمیشہ بنا رہنے والا'، یعنی جس کا نہ وغیرہ ہے نہ خاتمہ سناتن دھرم ابائی طور پر ہندوستانی مذہب ہے، جو کسی زمانے میں پورے ورهتتر بھارت (برصغیر) تک پھیلی رہا ہے۔ مختلف وجوہات سے ہوئے بھاری دھرمانتر کے بعد بھی دنیا کے اس علاقے کی اکثریت اسی مذہب میں ایمان رکھتی ہے۔ سندھ ند پار کے واسيو کو يرانواسي ہندو کہتے، جو 'س' کا تلفظ 'پآ' کرتے تھے۔ ان کی دیکھا - دیکھی عرب حملہ آور بھی وقت ہندوستانیوں کو ہندو اور ان کے مذہب کو ہندو مذہب کہنے لگے۔ بھارت کے اپنے ادب میں ہندو لفظ کوئی 1000 سال پہلے ہی ملتا ہے، اس سے پہلے نہیں۔

قدیم دور میں بھارتی سناتن دھرم کے پانچ فرقہ ہوتے اور شاكت طاقت اور شمسی سورج کی عبادت عبادت کیا کرتے تھے۔ پر یہ تسلیم تھی کہ سب ایک ہی حقیقت کی وضاحت ہیں۔ یہ نہ مقبول گرنتھوں میں بھی واضح طور پر کہا گیا ہے۔ ہر فرقہ کے حامی اپنے خدا کو دوسرے سمپردايو کے دیوتا سے بڑا سمجھتے تھے اور اس وجہ سے ان میں تعصب بنا رہتا تھا۔ اتحاد برقرار رکھنے کے مقصد سے دھرمگروو نے لوگوں کو یہ تعلیم دینا شروع کیا کہ تمام دیوتا اسی طرح ہیں، وشنو، شیو اور طاقت وغیرہ دیوی - دیوتا باہم ایک دوسرے کے بھی متقی ہیں۔ ان کی ان تعلیمات سے تینوں سمپردايو میں میل ہوا اور سناتن دھرم کی پیدائش ہوئی۔ سناتن دھرم میں وشنو، شیو اور طاقت کو برابر مانا گیا اور تینوں ہی فرقہ کے حامی اس مذہب کو ماننے لگے۔ سناتن دھرم کا میں رچی گئی ہے۔ كالانتر میں ہندوستان میں مسلمان حکومت ہو جانے کی وجہ دے وبھاشا سنسکرت کا هراس ہو گیا اور سناتن دھرم کی کشی ہونے لگی۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے عالم سنت تلسی داس نے مقبول زبان میں مذہبی ادب کی تخلیق کرکے سناتن دھرم کی حفاظت کی۔ جب نوآبادیاتی برطانوی حکومت کو مسیحی، مسلم وغیرہ مذاہب کے ماننے والوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے مردم شماری کرنے کی ضرورت پڑی تو سناتن لفظ سے نا واقف ہونے کی وجہ سے انھوں نے یہاں کے مذہب کا نام سناتن دھرم کے مقام پر ہندو مذہب رکھ دیا۔

سناتن دھرم ہندو مذہب کا اصلی نام ہے۔

روایتیں ترمیم

ہندو مذہب، اپنی مذہبی اصولوں اور روایات کے عمل بہت مخصوص ہوتے ہیں اور inextricably ثقافت سے منسلک ہے اور بھارت کی آبادی۔ ہندو مذہب میں دنیا کے سب سے مختلف اداروں میں سے ایک ہے کہ ایک مذہب ہندو مذہب کے طور پر درجہ بندی مشکل ہے کیونکہ خاکہ، علامت، لیڈروں اور ریفرنس کی کتابیں ہے کہ ایک مخصوص ہندو مذہب کے معاملے میں کی شناخت نہیں کر رہے ہیں مخصوص مذہب بنانا ہے۔ ہندو لفظ ایک طرح سے ایک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

بڑے قبائل اور بھارت کے دیسی کمیونٹیز کے قریب ترکیب اور ہندو تہذیب کے قیام سے جڑی ہیں۔ [کے لوگوں [مشرقی ایشیائی]] شمال مشرقی بھارت اور نیپال کے ریاستوں میں رہنے والے بھی ہندو تہذیب کا ایک حصہ تھے۔ امیگریشن اور لوگوں کے تصرف [سے [جنوبی بھارت میں ہندو مذہب کی جڑیں اور درمیان قبائلی اور سودیشی کمیونٹیز کے بس کے طور پر قدیم اور بنیادی مذہبی اور فلسفیانہ نظام کی بنیاد کو بیان کرتا ہے۔

قدیم ہندو ریاستوں سے اٹھ کر مذہب اور بھر میں پھیل روایات جنوب مشرقی ایشیا، خاص کیا اب مرکزی ہے ویتنام. بھارتی جڑوں اور روایات سے خاص طور سے مختلف ہندو مذہب کی ایک شکل [میں پریکٹس بالی، انڈونیشیا، جہاں ہندوؤں کی آبادی کے 90٪ طور ہے۔ بھارتی تارکین وطن ہندو مذہب اور ہندو [ثقافت کو لے لیا ہے جنوبی افریقا، فجی، ماریشس اور دیگر ممالک اور بحر ہند اور [کے ممالک میں [ویسٹ انڈیز]] اور کیریبین کے ارد گرد .

ہندو تقریب، جشن اور حج ترمیم

اہم مضامین: ہندو تہوار

ہندو مذہب بھی مذہبی الگ وقت اور زندگی کے واقعات اور موت کے لیے اپنے پیروکاروں کی طرف سے پھانسی کی تقریب میں بہت تنوع ہے۔ ہندوؤں کے وزیر ونود بھی علاقے سے علاقے میں شامل ہیں۔ مختلف

کئی ہندو مقدس مذہبی مقامات کے لیے حج کرنے ([کے طور پر جانا [حج اور Kshetra | tirthas]]). ہندو مقدس مندر ایس شامل کیلاش پہاڑ، امرناتھ، ویشنو دیوی، رامے شورم اور کیدار . اہم ہندو مقدس شہر میں شامل

دیوی درگا '[میں مقدس مندر s [ویشنو]] ہر سال ہزاروں یاتریوں کی دیوی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ہندوؤں کی سالانہ لاکھوں کی سینکڑوں ایسے [کے طور پر مقدس دریاؤں سفر گنگا ("گنگا" سنسکرت میں دریا) اور انھیں مندر کے قریب، دھونے اور خود کو غسل کے لیے اپنے گناہوں کو پاک۔ کمبھ میلہ (عظیم صاف) کی کانفرنس 10 کو 20 million ہندوؤں کے درمیان پر الہ آباد (پرياگ)، اجین، ناسک، کے طور پر وقت وقت پر مختلف حصوں کا میں ٹھہرایا میں مقدس دریاؤں کے کنارے ہندو مذہب ہے پروہت قیادت کی طرف سے بھارت۔ سب سے مشہور گنگا اور جمنا [میں کے سنگم پر ہے [اترپردیش]]، جو 'کے طور پر جانا جاتا ہے سنگم ".

کھٹمنڈو میں واقع پشپتناتھ مندر ترمیم

سناتن دھرم کی گتتھيو کو دیکھتے ہوئے اسے اکثر مشکل اور سمجھنے میں مشکل مذہب سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، حقیقت ایسی نہیں ہے، پھر بھی اس کے اتنے طول و عرض، اتنے پہلو ہیں کہ لوگباگ اسے لے کر الجھن میں ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ سناتن دھرم کسی ایک فلسفی، منیشا یا بابا کے خیالات کی پیداوار نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی خاص وقت پیدا ہوا۔ یہ تو اناد دور سے پرواهمان اور وكاسمان رہا۔ ساتھ ہی یہ صرف ایک دیکھنے والا، اصول یا دلیل کو بھی ترجیح نہیں دیتا۔ کوئی ایک خیال ہی بہترین ہے، یہ سناتن دھرم نہیں مانتا۔ اسی وجہ سے اس میں کئی سارے فلسفیانہ اصول ملتے ہیں۔ اس كھلے پن کی وجہ سے ہی کئی الگ - الگ اصول یہ مذہب میں ہیں۔ اس کی یہ نرمائی ہی اس کے زوال کا سبب رہی ہے، او یہی خصوصیت اسے زیادہ گراهي اور ٹھیک ٹھیک بناتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سادہ دماغ والے اسے سمجھنے میں بھول کر سکتے ہیں۔ زیادہ ٹھیک ٹھیک ہونے کے ساتھ ہی سناتن دھرم کو سمجھنے کے کئی مرحلے اور طریقے ہیں، جو یہ ٹھیک ٹھیک اصول سے پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ آسان - آسان دماغ والے اسے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پوری گہرائی میں جاننے کے لیے بھلے ہی ہمیں شدید اور متحرک سمجھداری تیار پڑے، لیکن عام لوگوں کے لیے بھی اس کے سادہ اور آسان اصول ہیں۔ سناتن دھرم کئی بار گمراہ کرنے والا لگتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر بغیر اس کے گہرے مطالعہ کے آپ اس کا تجزیہ کرنا چاہیں گے، تو کبھی سمجھ نہیں پائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سناتن دھرم محدود جہتوں یا پہلوؤں والا مذہب نہیں ہے۔ یہ واقعی علم کا سمندر ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اس میں گہرے اترنا ہی ہوگا۔ سناتن دھرم کے مختلف جہتوں کو نہیں جان حاصل کرنے کی وجہ سے ہی کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ سناتن دھرم کے مختلف رہنما نصوص میں تضاد ہیں۔ اس تضاد کا جواب اسيسے دیا جا سکتا ہے کہ ایسا صرف سناتن دھرم میں نہیں۔ کئی بار تو سائنس میں بھی ایسی بات آتی ہے۔ جیسے، سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ صفر درجہ حرارت پر پانی برف بن جاتا ہے۔ وہی سائنس ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ پانی صفر ڈگری سے بھی کم درجہ حرارت پر بھی کچھ خاص حالات میں اس کی اصل شکل میں رہ سکتا ہے۔ اس کا جو جواب ہے، وہی سناتن دھرم کے تناظر میں بھی ہے۔ جیسے، سائنس کے لیے دونوں ہی حقیقت صحیح ہے، اگرچہ وہ آپس میں متضاد ہیں اور سائنس کے نيموكو جھٹھلاتے ہوں۔ اسی طرح سناتن دھرم بھی اپنے كھلے پن کی وجہ سے کئی سارے مخالف خیالات کو خود میں سمیٹے رہتا ہے۔ لیکن سناتندھرم میں جو عنصر ہے، اسے انکار بھی تو نہیں جا سکتا۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں - اےك ستي، اکثر وپرا ودت - اسی طرح کسی ایک حقیقت کے بھی کئی سارے پہلو ہو سکتے ہیں۔ کچھ کتابیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ علم ہی حتمی عناصر تک پہنچنے کا راستہ ہے، کچھ کتاب کہہ سکتے ہیں کہ لگن ہی اس الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ سناتن دھرم میں ہر اس حقیقت یا حقیقت کو جگہ ملی ہے، جن میں مطلق قیمت اور اہمیت ہو۔ اس سے گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اسی راستے کو اختیار کریں جو آپ کے لیے صحیح اور آسان ہو۔ یاد رکھیں کہ ایک راستہ اگر آپ کے لیے صحیح ہے، تو دوسرے تمام راستے یا حقیقت غلط ہیں، سناتن دھرم یہ نہیں مانتا۔ ساتھ ہی، سناتن دھرم خود کو کسی دائرہ یا بندھن میں نہیں بادھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کی پیدائش سے ہی سناتني ہیں۔ سناتن دھرم کا علم جس طرح کسی پابندی میں نہیں بندھا ہے، اسی طرح سناتن دھرم خود کو کسی ملک، زبان یا نسل کے بندھن میں نہیں بادھتا۔ سچ پوچھیے تو زمانے سے لوگ سناتن دھرم کو اپنا رہے ہیں۔ سناتندھرم کے قوانین کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو دل کی خود ہی اس کی سچائی کو ماننے کو تیار ہو جاتا ہے۔ سائنس جس طرح بغیر علم کے نامکمل ہے۔ سناتن دھرم بھی بغیر علم نقصان عنصر ہے۔ علم انسان کے آس - پاس ہوتا ہے۔ اس کے اندر اندر ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال دیکھیے - ہون، یشتھ وغیرہ صحیفوں میں کوئی طریقہ کار قانون ساز کہا گیا ہے۔ کہ اسے کس مهورت میں کس نشست پر بیٹھ کر کس قسم کے کھانے کا استعمال کرتے ہوئے کرنا چاہیے، اتنا سا علم تو کچھ پیچیدہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے علم کے بغیر کیے گئے ہون، یشتھ نقصان ہی کریں گے، یہ علم بھی پیچیدہ نہیں ہے۔ دیکھنے سننے میں آتا ہے کہ جاہل لوگ فی دن اريسماج، مندروں، گھروں، میں معمول - قواعد بنا کر ہون، یشتھ وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ جب منع پھل حاصل ہوتا ہے، تب سناتن دھرم قی نرمائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سناتن دھرم کو قربان کر دیتے ہیں اور اس قدیم سناتن دھرم قی كھاميا تلاش کرنے لگتے ہیں جبکہ سناتن دھرم اپنے آپ میں مکمل سچ مذہب ہے۔

حوالہ جات ترمیم