سورہ سبا

قرآن مجید کی 34 ویں سورت

قرآن مجید کی 34 ویں سورت جو 22 ویں پارے میں ہے۔ اس میں 6 رکوع اور 54 آیات ہیں۔

  سورۃ 34 - قرآن  
سورة سبأ
Sūrat Sabaʾ
سورت سبأ
----

عربی متن · انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
عددِ پارہ22 واں پارہ
اعداد و شمار6 رکوع, 54 آیات

نام

آیت 15 کے فقرے لقد کان لسبا فی مسکنھم آیۃ سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں سبا کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس کے نزول کا ٹھیک زمانہ کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ انداز بیاں سے محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ مکہ کا دور متوسط ہے یا دور اول۔ اور اگر دور متوسط ہے تو غالباً اس کا ابتدائی زمانہ ہے جبکہ ظلم و ستم کی شدت شروع نہ ہوئي تھی اور ابھی صرف تضحیک و استہزاء، افواہی جنگ، جھوٹے الزامات اور وسوسہ اندازیوں سے اسلام کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس سورت میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت توحید و آخرت پر اور خود آپ کی نبوت پر زیادہ طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔ ان اعتراضات کا جواب کہیں تو ان کو نقل کر کے دیا گیا ہے اور کہیں تقریر سے خود یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ کس اعتراض کا جواب ہے۔ جوابات اکثر و بیشتر تفہیم و تذکیر اور استدلال کے انداز میں ہیں، لیکن کہیں کہیں کفار کو ان کی ہٹ دھرمی کے برے انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ اسی سلسلے میں حضرت داؤد، سليمان علیہ السلام علیہما السلام اور قوم سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ تمھارے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام ہیں جن کو اللہ تعالٰیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور وہ شوکت و حشمت عطا کی جو پہلے کم ہی کسی کو ملی ہے مگر یہ سب کچھ پا کر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اپنے رب کے خلاف بغاوت کرنے کی بجائے اس کے شکر گزار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھ کر خود رائے قائم کر لو کہ توحید و آخرت کے یقین اور شکر نعمت کے جذبے سے جو زندگی بنتی ہے وہ زیادہ بہتر ہے یا وہ زندگی جو کفر و شرف اور انکارِ آخرت اور دنیا پرستی کی بنیاد پر بنتی ہے۔