سید غلام محمد شاہ گیلانی

آپ کا نام نامی اسم گرامی سید غلام محمد شاہ گیلانی ہے اور آپ کا تعلق آستانہ عالیہ چورہ شریف سے ہے۔[1]

سید غلام محمد شاہ گیلانی

معلومات شخصیت
مقام پیدائش تیزئی شریف
وفات 28ربیع الثانی 1326ھ /1908ء
مردان
نسل سید
مذہب اسلام
فقہی مسلک حنفی
مکتب فکر اہل سنت ، ماتریدیہ
اولاد سید محمود شاہ گیلانی ، سید محمدسعید شاہ گیلانی، سید حسن شاہ گیلانی
والد سید شاہ محمد گیلانی

ولادت ترمیم

آپ حضرت خواجہ سید شاہ محمد گیلانی حضراتِ خورد  رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے صاحبزادے اور فرزند دوم تھے۔ آپ کی وِلادتِ باسعادت تیزئی شریف میں ہوئی۔ سن وِلادت معلوم نہیں ہو سکا۔[2]

اولاد ترمیم

آپ کے تین صاحبزادگان یادگارِ زمانہ ہوئے ہیں :

  1. سید محمود شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ۔
  2. سید محمدسعید شاہ گیلانی المعروف مولوی صاحب رحمة الله عليه۔
  3. سید حسن شاہ گیلانی رحمة الله عليه۔[3]

تعلیم اور بیعت و خلافت ترمیم

آپ نے علومِ ظاہری کی تکمیل چوراشریف میں ہی کی۔آپ کی بیعت اپنے والد گرامی قدر سے تھی، انہی کی زیر تربیت رہ کر سلوکِ مجددیہ کی منازل طے کرکے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور خلافت و اجازتِ بیعت ِچہار سلسلہ سے مشرف ہوئے۔[4]

تبلیغِ دین ترمیم

آپ تبلیغِ دین کے سلسلہ میں بہت سرگرم تھے۔ کشمیر میں آپ کا بہت ہی اثر تھا۔ سردار مختار خاں کے پاس پلندری کے مقام پر اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ وہاں آپ  عموماً مجلس مجالس منعقد فرمایا کرتے اور پھر آگے آگے خود کلمہ شریف پڑھتے اور احباب آپ کے پیچھے پیچھے پڑھتے، اس طرح سب گاؤں والوں کو کلمہ، نماز اور دوسری ضروریاتِ دین سے روشناس کراتے۔ جہاں بھی تشریف لے جاتے، اِسی طرح مجلس قائم فرماتے اور وعظ و نصیحت فرماتے، بہترین مقرر اور خطیب تھے۔ اندازِ بیان کی خوش اُسلوبی اپنی مثال آپ تھی۔[5]

قطبِ زماں وغوثِ دوراں ترمیم

حضرت سید محمود شاہ  رحمۃ اللہ علیہ جوعلاقہ ہزارہ میں علامۃ العصر اور فضلائے زمانہ میں سے تھے، اکثر کہا کرتے تھے کہ چورا شریف کے پیروں کے پاس علم نہیں ہے۔ ایک دفعہ علاقہ کوٹ سونڈکی میں وعظ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ قبلہ حضرت سید غلام محمد شاہ گیلانی  رحمۃ اللہ علیہ بھی اونٹنی پر سوار وہاں سے گذرے، جہاں سید محمودشاہ تقریر فرما رہے تھے۔ قبلہ غلام محمد شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے خادموں سے پوچھاکہ یہاں ہجوم کیسا ہے؟ تو عرض کی کہ حضرت! سید محمود شاہ وعظ فرما رہے ہیں۔آپ جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔ جب سید محمود شاہ صاحب کی نظر آپ پر پڑی تو چہرہ انور کودیکھتے ہی منبر سے اُتر آئے اور حضرت صاحب کی قدم بوسی کی اور برملا اپنی عاجزی و انکسار کا اظہار کیا اور منبر پر کھڑے ہوکر علی الاعلان فرمایا: آپ قطب ِ زماں اور غوثِ دوراں ہیں۔ پھر حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ آپ وعظ فرمائیں! چنانچہ آپ نے پند و نصائح ارشاد فرمائے۔ وعظ کے اختتام پر سینکڑوں آدمی سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں داخل ہوئے۔[6]

پہلے خطیب اور مقرر ترمیم

آپ آستانہ عالیہ چوراشریف میں پہلے مبلغ و خطیب تھے،جنھوں نے منبرو محراب سے اعلائے کلمۃ الحق بلند فرمایا۔ آپ کی اشاعت ِ اسلام اور تبلیغِ دین کی خدمات یادگار ہیں اور آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اندازِ خطابت ایسا مسحور کن ہوتا تھا کہ سن کرہندوؤں کی ایک معتد بہ تعداد مسلمان ہو جاتی تھی۔ آپ کے کمالات اور چہرہ انور کی ملاحت دیکھ کر لوگ فریفتہ ہوئے جاتے تھے۔[7]

تصرفات ترمیم

کوٹ سونڈکی میں ایک زمیندار نے حضرت صاحب کو زمین نذر کی ہوئی تھی۔ آپ اکثر وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ زمین کے ایک طرف ایک بڑا پتھر آپ نے رکھوایا تھا۔جس پر حضرت صاحب سحری کے وقت بیٹھ کر زُہد و عبادت میں مصروف ہوتے تھے اور صبح اشراق کے بعد ڈیرے پر واپس تشریف لاتے۔ حضرت صاحب کی وفات کے بعد وہ زمین غیر آباد ہو گئی۔ گاؤں کے ایک زمیندار مصری خاں جس کی زمین اس زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ نے سوچا کہ اس پتھر کو اپنے گھر لے جاؤں۔ چنانچہ اپنے لڑکوں سے کہا کہ یہ پتھر اُٹھا کر گھر لے جائیں۔ لڑکوں نے کہا کہ یہ پیر صاحب کا پتھر ہے۔ اِسے نہ ہلائیں لیکن مصری خاں پر اثر نہ ہوا۔کہنے لگا: پیر صاحب اب کہاں ہیں وہ تو فوت ہو چکے ہیں۔آخر ساتھ ستر آدمیوں کی مدد سے پتھر اُٹھوا کر اپنے گھر لے گیا۔ اسی رات مصری خاں نے عالمِ خواب میں دیکھا کہ گاؤں میں شور مچا ہوا ہے کہ قبلہ حضرت سید غلام محمدشاہ گیلانی تشریف لائے ہیں۔ مصری خاں بھی حضرت صاحب کو دیکھنے چلا گیا۔ آپ بالکل اُسی طرح تھے، جیسے زندگی میں تھے۔ بہت سے عقیدت مندوں کے ساتھ کلمہ شریف کا وِرد کرتے ہوئے گھوڑی پر سوار تشریف لا رہے تھے۔مصری خاں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کرنا چاہا لیکن آپ نے اُسے دیکھ کر ناراضی کو اظہار فرمایا اور فرمایا: تم یہی کہتے تھے کہ پیر صاحب تو فوت ہو گئے ہیں، اب اِس پتھر کو کیا کرنا ہے؟ اور آپ نے چھڑی مصری خاں کو چبھوئی، جو اس کی آنکھ میں لگی۔ مصری خاں کی چیخ نکل گئی اور جاگ گیا۔ گھروالے سب کٹھے ہو گئے، دیکھا توآنکھ ضائع ہو گئی۔ بہت علاج کرائے مگر افاقہ نہ ہوا۔ مصری خاں کہتا تھا کہ یہ حضرت صاحب کی شان میں گستاخی کی سزا ہے۔ اب یہ آنکھ درُست نہیں ہو سکتی۔ مصری خاں کو ایک دُنیا جانتی ہے۔[8]

وفات سے کچھ عرصہ پہلے آپ پونچھ کشمیر میں تھے۔ وہاں روافض سے مباحثہ ہوا۔ آپ کے مقابلہ میں انھیں سخت زِک اُٹھانا پڑی اور روافض کی کثیر تعداد تائب ہو کر داخل سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ اور اہل سنت وجماعت ہوئی۔[9]

اخلاق و عادات ترمیم

آپ اخلاقِ حسنہ سے متصف تھے۔ آپ کی شخصیت میں جمال و جلال کا بہترین امتزاج تھا۔ حضرت خواجہ سیّد شاہ محمد گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلف الرشید ہونے کی وجہ سے آپ کی طبیعت اور صفاتِ عالیہ ان سے ملتی جلتی تھیں۔ علومِ ظاہری و باطنی میں درجہ کمال پر فائز تھے۔آپ کے پند و نصائح اور خطابت میں اس قدر تاثیر تھی کہ بہت سے غیر مسلم آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔[10]

وفات ترمیم

وفات سے پہلے آپ تبلیغِ دین کے سلسلہ میں مردان کے علاقہ میں تشریف لے گئے، آپ وعظ فرما رہے تھے، لوگ وجد میں تھے۔ معرفتِ ربانی سے حجاب اُٹھ رہے تھے، حاضرین جمالِ مجددی کے جلووں میں مست تھے۔ جب آپ تقریر ختم کرکے منبر سے نیچے تشریف لائے۔ آپ کی زبانِ مبارک پر اسم ذات ”اللہ! اللہ!“کا وِرد جاری تھا،ا ِسی حالت میں واصل بحق ہوئے۔ اس طرح آپ کی حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات بھی دین اسلام کی تبلیغ میں صرف ہوئے۔آپ کی تاریخ وفات 28ربیع الثانی 1326ھ بمطابق 1908ء ہے۔[11]

حوالہ جات ترمیم

  1. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 519
  2. ایضاً
  3. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 522
  4. ایضاً
  5. ایضاً
  6. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 520
  7. ایضاً
  8. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 521
  9. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 521-522
  10. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 522
  11. محمد یوسف مجددی، جواہر نقشبندیہ، ص: 520