سیف الحق ادیب دہلوی

صحافی، شاعر، غالب کے شاگرد

مولوی سیف الحق ادیب دہلوی (پیدائش: 1846 - وفات: 8 ستمبر 1891ء) شاہ عبد الحق محدث دہلوی کے خاندان کے چشم و چراغ، شاعر، صحافی اور مرزا غالب کے شاگرد تھے۔[1]

سیف الحق ادیب دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1846ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 ستمبر 1891ء (44–45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سل   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ مرزا غالب   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  صحافی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

سیف الحق ادیب 1846ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستان کے ممتاز عالمِ دین شاہ عبد الحق محدث دہلوی کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کا نام مولوی محمد احسان الحق تھا۔ رسمی تعلیم مڈل تک ہی حاصل کر سکے، لیکن خداداد ذہانت اور استعداد کے مالک تھے۔ شعر و سخن کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ ایک مرتبہ کسی مشاعرے میں غزل پڑھی جس کا مطلع یہ تھا:[2]

لیجاؤ میرے سینے سے نارک نکال کےپر دل نکل نہ آئے کہیں دیکھ بھال کے

مرزا غالب مشاعرے میں موجود تھے۔ پاس بلا کر پیار کیا اور فرمایا میاں سیفو ہمارے پاس آیا کرو آج سے ہم تمھیں بتائیں گے۔ مرزا غالب کی توجہ سے شاعری میں اور ہی رنگ پیدا ہو گیا۔ ضرورتِ روزگار کے تحت کچھ دن عدالت میں نائب ناظر رہے لیکن انشاء پردازی کی خداداد صلاحیت نے سرکاری ملازمت کی پابندی گوارا نہ کی۔ اخباری دنیا میں قدم رکھا۔ میو گزٹ نامہ اخبار نکالا۔ جو کچھ عرصے تک کامیابی سے چلا۔ اس میں اعلیٰ درجے کے شاعرانہ مضامین اور غزلیں شائع ہوتی تھیں پھر جب پر چہ بند ہو گیا تو مختلف اخباروں میں اپنے مضامین نظم و نثر چھپواتے رہے۔ اس اثناء میں انجمن قصور کے سیکر یٹری ہو کر وہاں چلے گئے اور انجمن کا رسالہ کامیابی سے چلایا۔ جب وہاں سے جی اُچاٹ ہوا تو لاہور آکر کچھ دن سررشتہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ پھر کچھ عرصہ کوہِ نور میں ایڈیٹر رہے۔ اکثر اخبارات میں علمی مباحثوں میں حصہ لے کر اس زمانہ کے سیاسی لیڈروں، ادیبوں اور شاعروں سے الجھ پڑے۔ نازک مزاجی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ رفیق ہند لاہور کے بعض مضامین سے ناراض ہو کر اس کے جواب میں شفیق ہند نکالا جس کے ساتھ نسیم صبح اور شام وصال کے نام سے دو ضمیمے بھی نکلتے تھے یہ اخبار ظریفانہ رنگ کے تھے، یہ پرچے ظریفانہ رنگ کے تھے۔ غرض کہ پنجاب میں انھوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ مختلف جلسوں اور قومی کا نفرنسوں میں وقتاً فوقتاً لیکچر بھی دیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے نہایت کم عمری میں ہی اپنی لیاقت اور ذہانت کا لوہا منوالیا تھا۔ اسی شہرت کی بنا پر سرکار آصفیہ حیدرآباد دکن میں گورنمنٹ رپورٹر کے عہدے پر فائز کیے گئے۔ سیف الحق ادیب خوب رو، خوش وضع، رنگین طبع، نازک خیال، خوش تقریر، خوش تحریر شخص تھے۔ خوش نویسی میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ مزاج میں لا پروائی غیر معمولی تھی۔ آخری عمر میں تپ دق کا مرض لاحق ہو گیا تھا جس کی وجہ کثرت شراب نوشی بتائی جاتی ہے۔ 45 برس کی عمر میں 8 ستمبر 1891ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں انتقال کر گئے۔ [3]

حوالہ جات ترمیم

  1. ڈاکٹر کاظم علی خاں: توقیت غالب، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی، ص 76
  2. مولوی محبوب عالم، اردو اخبارات کی ایک نادر تاریخ یعنی فہرست اخبارات ہند، مقدمہ و حواشی ڈاکٹر طاہر مسعود، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور، 1992ء، ص 263
  3. اردو اخبارات کی ایک نادر تاریخ، ص 264