شاہ فتح علی قلندر کا سلسلہ قلندریہ سے تعلق تھا۔ اپنے عم بزرگ شاہ عبدالقدوس قلندر اور شاہ مجتبی قلندر عرف شاہ مجا قلندر لاہرپوری متوفی 1084ھ / 1674ء کے تربیت یافتہ تھے۔[1] [2]

شاہ فتح علی قلندر اور دارا شکوہ کے درمیان مراسلت کا سلسلہ تھا۔ حسن اتفاق سے وہ سوالات جو دارا شکوہ نے ان کی خدمت میں بھیجے تھے وہ بصورت رسالہ محفوظ ہیں اور شائع ہو چکے ہیں۔[3]

شاہ فتح علی قلندر اپنے جوابات کے لیے جن شخصیات کے اقوال پیش کرتے ہیں ان میں مجذوب شیرازی کے علاوہ بھگت کبیر کا نام بھی شامل ہے جس کے افکار وہ موحد ہندی کے لقب سے فخر سے پیش کرتے ہیں۔ ایک سوال میں دارا شکوہ نے پوچھا کہ کس علم کو حجاب اکبر کہا گیا ہے تو شاہ فتح علی قلندر فرماتے ہیں:

علم حق در علم صوفی گم شود ۔۔۔ ایں سخن کی باور مردم شود

جب دارا شکوہ نے ان سے دریافت کیا کہ بے نہایت دل میں کیسے سما سکتا ہے۔ تو اس کے جواب میں شا ہ فتح علی قلندر نے فرمایا:

حلول و اتحاد ایں جا محال است ۔۔۔ زعین وحدتش این خود ضلال است[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. روض الازہر فی مآثر القلندر، طبع رام پور ۔1336ھ ص174
  2. تعلیمات قلندریہ، تقی حیدر قلندر، لکھنو ص37
  3. تعلیمات قلندریہ، تقی حیدر قلندر، لکھنو ص38-40۔
  4. جوگ بشسٹ، مرتبہ امیر حسن عابدی، طبع علی گڑھ، ص26