شفیق حسن ایلیا

اردو زبان کے مرثیہ گو شاعر

علامہ سید شفیق حسن ایلیا (پیدائش: 14 جولائی 1885ء - وفات: 8 جنوری 1956ء) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے شاعر، مرثیہ نگار اور عالم تھے۔ انہوں نے نظم، قصیده، منقبت ، نعت، سلام، مرثیہ اور قطعہ سمیت دیگر اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ معروف شعرا و فلسفی رئیس امروہوی، سید محمد تقی اور جون ایلیا کے والد ہیں۔

شفیق حسن ایلیا
معلومات شخصیت
پیدائش 14 جولا‎ئی 1885ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امروہہ ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 جنوری 1956ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امروہہ ،  اتر پردیش ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (14 جولا‎ئی 1885–14 اگست 1947)
بھارت (15 اگست 1947–8 جنوری 1956)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد رئیس امروہوی ،  سید محمد تقی ،  جون ایلیا   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  عربی ،  عبرانی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل نعت ،  حمد ،  مرثیہ ،  قصیدہ ،  سلام ،  قطعہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

سید شفیق حسن ایلیا 14 جولائی 1885ء[1] کو امروہہ، برطانوی ہندوستان پیدا ہوئے۔ وہ حضرت مخدوم شرف الدین حسین شاہ ولایت امروہہ کے خلفِ اکبر سید علی قاضی القضاۃ امروہہ کی اولاد میں سے ہیں۔ سلطان محمد بن تغلق کے دور حکومت میں اس خاندان کو عروج حاصل ہوا اور اس خاندان کے افراد مناصبِ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ والد کا نام سید نصیر حسن ہے۔ شفیق حسن ایلیا کو قدرت نے ذہن رسا اور طبحِ سلیم کی نعمت عطا فرمائی ہے۔عربی، فارسی، انگریزی اور سنسکرت میں مہارت رکھتے تھے۔ شفیق حسن ایلیا نے عربی و فارسی کی تعلیم اپنے داد سید امیر حسن سے حاصل کی، اس کے علاوہ امروہہ کے مشہور عالم مولوی سید اولاد حسن سلیم امروہوی سے بھی درس حاصل کیا۔ وہ شاعری میں بھی سلیم امروہوی کے ہی شاگرد تھے۔[2] اگرچہ انھیں تمام اصنافِ سخن پر مکمل عبور حاصل تھا لیکن انھوں نے مشاعروں میں شریک ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ البتہ مذہبی محفلوں اور مجلسوں میں وہ ضرور شرکت کرتے اور نعت و منقبت کا کلام سناتے۔ اُن کے کلام کا بیشتر حصہ ضائع ہو گیا۔ ان کا اصل تخلص شفیق تھا لیکن ایلیا اور اختر بھی تخلص استعمال کرتے تھے۔ انھیں شہرت ایلیا سے بھی حاصل ہوئی تھی۔ ان کی تصانیف میں حقیقت المسیح، اصل الاصول، رئیس العالمين، آثار الشہداء، شہیدِ ازل، الصدق، صاحبِ زماں، عالمِ برزخ، تصديق المعراج، تحقيق السراج اور معراجِ نفسِ رسول (ناشر: رئیس اکاڈیمی کراچی، 1979ء، صفحات 112) اور دیگر شامل ہیں۔ معراجِ نفسِ رسول ایلیا کا شعری مجموعہ ہے جس میں 156 بند پر مشتمل ایک مسدس شامل ہے، جن میں حمد، نعت محمد، منقبتِ علی و فاطمہ، ساقی نامہ اور معراج کا تفصیلی حال بیان کیا ہے۔ مسدس کے علاوہ اس مجموعہ میں 62 مدحیہ قطعات بھی ہیں۔ ایلیا کے اولاد میں میں چار فرزند رئیس امروہوی۔ سید محمد تقی، سید محمد عباس اور جون ایلیا شامل ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد یہ چاروں بھائی پاکستان منتقل ہو گئے اور انہوں نے علمی و ادبی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑٰیں ہیں۔ ایک دختر شاہ زناں نجفی شامل ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ ہندوستان میں ہی مقیم تھیں۔[3]

وفات ترمیم

شفیق حسن ایلیا 8 جنوری 1956ء کو امروہہ، بھارت میں وفات کر گئے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. مضمون: بابا، رئیس امروہوی مشمولہ: معراجِ نفسِ رسول، رئیس اکاڈیمی کراچی، 1979ء
  2. عظیم امروہوی، مرثیہ نگاران امروہہ، ناشر: عاصم نقوش، مہران عظیم، ص 416
  3. مرثیہ نگاران امروہہ، ص 419