شکیل بدایونی

بھارتی مصنف

اردو شاعر۔ اگست سنہ 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ علی گڑھ میں قیام کے دروان جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے۔ اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔

شکیل بدایونی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 3 اگست 1916ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدایوں  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 اپریل 1970ء (54 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر،  غنائی شاعر،  نغمہ نگار،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو،  ہندی،  ہندوستانی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات[1]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

شکیل بدایونی نے نوشاد، روی، ہیمنت کمار، ایس ڈی برمن اور سی رام چندر جیسے ممتاز موسیقاروں کی دھُنوں پر سوا دو سو سے زائد گیت لکھے۔ ان کے گیتوں کو محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مکیش، شمشاد بیگم، ثریا، مہندر کپور، طلعت محمود، روی شنکر شرما، گیتا دت اور ہردئے ناتھ منگیشکر جیسے صفِ اول کے گلوکاروں نے اپنی آواز میں پیش کیا۔ دلاری (1949)، دیدار (1951)، مدر انڈیا (1957)، چودہویں کا چاند (1960)، مغلِ اعظم ( 1960)، گنگا جمنا ( 1961) صاحب بی بی اور غلام ( 1962)، میرے محبوب ( 1963) دو بدن ( 1966) جیسی سپر ہٹ فلموں میں شکیل بدایونی کے نغموں نے دھوم مچا دی 

فلمی گیتوں کے علاوہ شاعری کے پانچ مجموعے غمہ فردوس، صنم و حرم، رعنائیاں، رنگینیاں، شبستاں کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ان کی کلیات بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی، تاہم  1969 میں لکھی گئی آپ بیتی 2014 میں چھپی ہے

20 اپریل 1971 کو ممبئی میں انتقال ہوا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ مگر قبرستان کی انتظامیہ نے اور دوسرے بہت سی مشہور شخصیات کی طرح 2010 میں ان کی قبر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔

نمونۂ کلام

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی

ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں

کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے

کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا

جینے والے قضا سے ڈرتے ہیں
زہر پی کر دوا سے ڈرتے ہیں
دشمنوں کے ستم کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

حوالہ جات

  1. میوزک برینز آرٹسٹ آئی ڈی: https://musicbrainz.org/artist/1d3c49aa-a3d8-4992-b1d0-0a9b3abaae22 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 ستمبر 2021

ڈاکٹر شفیع ایوب 

ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، (انڈیا ) 110067

Dr. Shafi Ayub, 

Centre Of Indian Languages, 

SLL&CS/ JNU, New Delhi – 110067 (India) 

Mobile : 9810027532 

shafiayub75@rediffmail.com

http://www.scholarsimpact.com/urdu/?p=3040آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ scholarsimpact.com (Error: unknown archive URL)