صاحب آسرا (پیدائش 19 جولائی 1997) [1] پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک کھلاڑی ہیں۔ وہ سپرنٹ ایونٹس سو میٹر،دو سو میٹر اور چار سو میٹر میں مہارت رکھتی ہے

آسرا کے والد قاری عالم خان جو فیصل آباد کی ایک مقامی مسجد کے امام ہیں، اپنی بیٹی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ سے آسرا کو اگے بڑھنے میں مدد ملی۔ [2] [3]

آسرا نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاگیتوں کا اظہار کیا [4]

قومی مقابلوں میں وہ واپڈا کی نمائندگی کرتی ہیں۔ [5] 2018ء کی قومی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں، اس نے 11 منٹ کے وقت میں 100 میٹر میں طلائی تمغا جیتا۔ [6] پشاور میں منعقدہ 33 ویں قومی کھیلوں میں اس نے 4 × 400 m [7] میں طلائی تمغا اور 100 میٹر، [8] 200 میٹر [9] اور 400 میٹر میں 3 چاندی کے میڈل جیتے تھے۔ [10]

آسرا نے دسمبر 2019ء میں کھٹمنڈو، نیپال میں منعقدہ 13ویں ساؤتھ ایشین کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جہاں اس نے 3 تمغے جیتے: [11] 400 میٹر میں کانسی کا تمغا اور 4 × 400 m اور 4 × 100 m میں بالترتیب چاندی اور کانسی کا تمغا جیت کر انھوں نے اپنے طور پر بہترین کارکردگی دکھائی حالانکہ۔وہ اس سے بھی زیادہ کر سکتی تھی تاہم قومی سطح پر سہولیات کے فقدان کے باعث اتھلیٹ خود سے منسوب توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے جو طلائی تمغا کا حصول ہو سکتا ہے۔

صاحب آسرا کہتی ہیں اگر آپ پاکستان میں ایتھلیٹ ہیں، تو امکان ہے کہ آپ کو اپنی شناخت بنانے کے لیے تمام مشکلات سے لڑنا پڑے گا۔ اور اگر آپ خاتون ایتھلیٹ ہیں تو مشکلات اور بھی زیادہ ہیں۔ بمشکل کسی اچھی کوچنگ، غذائیت یا تربیت کی سہولیات کے ساتھ، کھلاڑی اکثر اکیلے ہوتے ہیں یہ کہنا اس اس پس منظر میں ہے کہ گولڈ میڈلسٹ صاحب اسرا روزانہ دوڑتے رہنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے خواب بنتی ہیں۔ سوشل میڈیا اس نوجوان لڑکی کی دل کو گرما دینے والی کہانی اور اسے اپنے والد، جو ایک مقامی مسجد کے امام ہیں، کی جانب سے ملنے والی حمایت کی تعریف سے بھرا ہوا ہے سوشل میڈیا صارفین آسرا کی کہانی سے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئے اور دل کو گرما دینے والی باپ بیٹی کی جوڑی کی کہانی کو سراہا۔ کچھ نے سماجی ترقی کے بارے میں بھی اپنی امید کا اظہار کیا۔ اسپورٹس اسٹار کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔آسرا کے والد قاری عالم خان نے کہا کہ انھوں نے اپنے کھیل کے کیریئر کے آغاز سے ہی اس کی حمایت کی اور اس کے ذریعے اس تصور کو توڑ دیا کہ ایک مزہبی شخصیت اپنی بیٹی کو کس حد تک کھیل کے میدان میں آگے بڑھنے کی اجازت دے سکتی ہے اسرا ایک سپرنٹر کے طور پر اپنا پیشہ ورانہ کیریئر شروع کرنے سے پہلے گولڈ میڈلسٹ تھیں۔ وہ ملک میں کھلاڑیوں کے لیے وسائل کی کمی کے باوجود اپنے شوق کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ آسرا اپنے کاموں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہے گی اور حکومت بھی اس نوجوان کھلاڑی کی صلاحیتوں کا ادراک کرے گی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "Sahib-e-Asra" (PDF)۔ Pakistan Sports Board (official)۔ 13 July 2021 
  2. "Meet Asra, Pakistan's fastest female runner | SAMAA"۔ Samaa TV (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  3. Hours TV (2019-01-03)۔ "Fastest Pakistani Female Athlete is Prayer Leader's Daughter"۔ Hours TV (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  4. "Sahib-e-Asra vows to win medal in Junior South Asian Athletics"۔ The Nation (بزبان انگریزی)۔ 2016-09-23۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  5. "Najma Parveen stays on record-smashing spree"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  6. The Newspaper's Sports Reporter (2018-11-17)۔ "Sahib-e-Asra, Uzair Rehman win gold medals in 100m"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  7. "National Games 2019"۔ nationalgames2019.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  8. "National Games 2019"۔ nationalgames2019.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  9. "National Games 2019"۔ nationalgames2019.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  10. "National Games 2019"۔ nationalgames2019.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021 
  11. Khilari۔ "Meet Sahib-e-Asra: Pakistan's Fastest Female Athlete! - Khilari"۔ www.khilari.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جولا‎ئی 2021