قرآن (عربی:القرآن، لفظی مطلب:’’تلاوت‘‘) اسلام کی مرکزی مذہبی کتاب ہے،جسے مسلمان خدا کی طرف سے وحی شدہ تسلیم کرتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے بڑے مذہب کی شرعی کتاب ہونے کے ناطےیہ دنیا ئے ادب میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے اور بے شمار ثانوی ادب کی بنیادبھی ہے۔ قرآن کے مختلف اسباق کو سورۃ کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس کے فقرات کو آیات کہا جاتا ہے۔

مسلمان اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سےجبرائیل فرشتے کے ذریعہ محمد پرلفظ بہ لفظ وحی کیا گیا۔وحی کا یہ سلسلہ قریباً ۲۳ برس کے عرصہ پر محیط ہے جو کہ ۲۲ دسمبر ۶۰۹عیسوی کو شروع ہوا جبکہ محمد کی عمر ۴۰ برس تھی اور آپ کی وفات کے سال یعنی ۶۳۲ عیسوی تک جاری رہا۔ مسلمان قرآن کو محمد کا سب سے بڑا معجزہ ، آپ کی نبوّت کی ایک دلیل، اور خداکی آخری شریعت تسلیم کرتے ہیں۔وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ قرآن وہ واحد الہامی کتاب ہے جو کہ ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔

احادیث کے مطابق محمد کے کئی صحابہ وحی کی کتابت کرتے تھے۔ محمد کی وفات کے فوراً بعدصحابہ نے قرآن کی تدوین کی ، اُس کو لکھا اور اُس کے مختلف حصّوں کو حفظ کرلیا۔ ان صحائف میں بعض فرق ہونے کے باعث خلیفہ عثمان نے جانچ پڑتال کے بعدایک صحیفہ مقرّر کر دیا جو کہ صحیفہ عثمانی کے نام سے جانا جاتا ہےاور موجودہ قرآن اُس ہی کی نقل ہیں۔ تاہم متبادل قرأت کی موجودگی اور ابتدائی عربی زبان میں اعراب کی غیر موجودگی کے باعث صحیفہ عثمانی کی آج کل کے قرآن اور محمد کی وحی سے مطابقت پوری طرح واضح نہیں۔

قرآن کی مکمل سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے لئے یہودی و نصرانی صحائف میں موجود واقعات سے شناسائی کسی حد تک ضروری ہے۔کیونکہ قرآن اُن میں سے کچھ واقعات کا خلاصہ بیان کرتا ہے، کچھ کی تفاصیل میں جاتا ہے اوربعض اوقات متبادل تفصیل و تشریح بیان کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق وہ ایک ہدایت کی کتاب ہے۔ بعض اوقات وہ مخصوص تاریخی واقعات کو تفصیلاً بیان کرتا ہے جبکہ بعض دفعہ وہ کسی واقعے کی اخلاقی اہمیت کو اُس کی واقعاتی تفصیل پر ترجیح دیتا ہے۔ قرآن بمعہ احادیث شریعت اسلامی کو سمجھنے کا ذریعہ ہے۔ نماز میں قرآن کی عربی زبان میں تلاوت کی جاتی ہے ۔

ایسا شخص جس نے قرآن زبانی یاد کیا ہو، حافظ کہلاتا ہے۔بعض مسلمان قرآنی آیات کوباقاعدہ قرأت کے ساتھ پڑھتے ہیں جسے تجوید کہتے ہیں۔ عموماً مسلمان رمضان کے مہینہ میں قرآن کا ایک دور تراویح میں مکمل کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان قرآن کا مطلب صحیح طور پر سمجھنے کے لئے تفسیر کا سہارا لیتے ہیں۔

= وجہ تسمیہ اور معنی= ترمیم

قرآن میں لفظ قرآن قریباً ۷۰ دفعہ آیا ہے اور متعدّد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ یہ عربی زبان کے فعل قرأ کامصدر ہےجس کے معنی ہیں ’’اُس نے پڑھا ‘‘ یا ’’اُس نے تلاوت کی‘‘۔سریانی زبان میں اس کے مساوی (ܩܪܝܢܐ) qeryānāکا لفظ ہےجس کامطلب ہے ’’صحیفہ پڑھنا‘‘ یا ’’سبق‘‘[1]۔اگرچہ کئی مغربی عالم اس لفظ کو سریانی زبان سےماخوذ سمجھتے ہیں، مگر اکثر مسلمان علمااس کی اصل خود لفظ قرأکو ہی قرار دیتے ہیں[2] ۔بہرحال محمد کے وقت تک یہ ایک عربی اصطلاح بن چکی تھی[3] ۔لفظ قرآن کا ایک اہم مطلب ’’تلاوت کرنا‘‘ ہے جیسا کہ اس ابتدائی قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: ’’یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے‘‘[4]۔

دوسری آیات میں قرآن کا مطلب ’’ایک خاص حصّہ جس کی تلاوت (محمدنے ) کی ‘‘کے بھی ہیں۔ نماز میں تلاوت کے اس مطلب کا کئی مقامات پر ذکر آیا ہے جیسا کہ اس آیت میں:’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘ ‘[5]۔جب دوسرے صحائف جیسا کہ تورات اور انجیل کے ساتھ یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب ’’تدوین شدہ صحیفہ‘ ‘بھی ہو سکتا ہے۔

اس اصطلاح سے ملتے جلتے کئی مترادف بھی قرآن میں کئی مقامات پر استعمال ہوئے ہیں ۔ ہر مترادف کا اپنا ایک خاص مطلب ہےمگر بعض مخصوص سیاق و سباق میں ان کا استعمال لفظ قرآنکے مساوی ہو جاتا ہے مثلا ًکتاب(بمعنی کتاب)،آیۃ(بمعنی نشان) اور سورۃ (بمعنی صحیفہ)۔آخری دو مذکورہ اصطلاحات ’’وحی کے مخصوص حصّوں‘‘ کے مطلب میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔بیشتر اوقات جب یہ الفاظ ’’ا ل‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو ان کا مطلب ’’وحی‘ ‘ کا ہوتا ہےجو وقفہ وقفہ سے نازل کی گئی ہو [6][7]۔بعض مزید ایسے الفاظ یہ ہیں:ذکر(بمعنی یاد دہانی)اور حکمۃ (بمعنی دانائی)۔

قرآن اپنے آپ کو الفرقان(حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا)، امّ الکتاب، ہدٰی (راہنمائی)، حکمۃ(دانائی)، ذکر(یاد دہانی) اور تنزیل (وحی یا اونچے مقام سے نیچے بھیجی جانے والی چیز) بیان کرتا ہے۔ ایک اور اصطلاح الکتاب بھی ہے، اگرچہ یہ عربی زبان میں دوسرے صحائف مثلاً تورات اور انجیل کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قرآن سے اسم صفت ’’قرآنی‘‘ ہے۔ مصحف کی اصطلاح اکثر مخصوص قرآنی مسوّدات کے لئے استعمال ہوتی ہےمگر اس کے ساتھ ہی یہ اصطلاح قرآن میں گذشتہ کتابوں کےلئے بھی استعمال ہوئی ہے۔

تاریخ ترمیم

عہد نبوی ترمیم

اسلامی روایات کے مطابقمحمّد پر پہلی وحی غار حرا میں اُس وقت نازل ہوئی جب آپ تنہائی میں عبادات کے لئے وہاں گئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ وحی ۲۳ برس کے عرصہ تک جاری رہا۔ احادیث اور اسلامی تاریخ کے مطابق ہجرت مدینہ کے بعد جب محمد نے وہاں ایک آزاد اسلامی معاشرہ قائم کر لیا تو آپ نے اپنےصحابہ کو قرآن کی تلاوت اور اس کے روزمرّہ نازل ہونے والے احکام کو یاد کرنے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم دیا۔ روایات میں یہ بھی ذکر موجود ہے کہ جنگ بدر کے بعدجب قریش کے کئی لوگ مسلمانوں کے ہاتھ قیدی بن گئے تو اُن میں سے کئی نے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے بدلے اپنی آزادی حاصل کی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ کئی مسلمان خواندہ ہونے لگے۔ قرآن کو پتھروں، ہڈیوں، اور کھجور کے پتّوں پر لکھا جانے لگا۔ اکثر سورتیں ابتدائی مسلمانوں کے زیراستعمال تھیں کیونکہ ان کا ذکر سنّی اور شیعہ دونوں روایات میں ملتا ہے۔ جیسا کہ محمد کا قرآن کو تبلیغ کے لئے استعمال کرنا، دعا ؤں میں اس کا پڑھا جانا اور انداز تلاوت کے بیان میں ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ، ۶۳۲ عیسوی میں محمد کی وفات کے وقت ابھی قرآن ایک کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ تمام علما اس بات پر متّفق ہیں کہ محمد خود وحی کی کتابت نہیں کرتے تھے۔

صحیح بخاری میں محمد کی وحی کی کیفیات کا حال یوں درج ہےکہ ’’بسا اوقات (وحی) گھنٹی کے بجنے کی طرح نازل ہوتی ہے‘‘ اور  عائشہ سے روایت ہے کہ، ’’میں نے ایک بہت سرد  دن میں حضور پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور (جب وحی ختم ہوئی تو)آپ کے ماتھے سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔‘‘قرآن کے بیان کے مطابق محمد پر پہلی وحی ایک کشف کے ساتھ نازل ہوئی۔ وحی نازل کرنے والی ہستی کا بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے’’مضبوط طاقتوں والا‘‘، وہ جو ’’بلند ترین اُفق پر تھا۔ پھر وہ نزدیک ہوا ۔ پھر وہ نیچے اُتر آیا۔پس وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہو گیایا اُس سے بھی قریب تر‘‘۔ ویلچ (Welch) جو کہ ایک اسلامی سکالر ہیں، Encyclopaedia of Islam  میں لکھتے ہیں کی وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وحی کے نزول کے وقت محمد کی کیفیات کی جو ظاہری شکل بیان کی گئی ہے وہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ وہ وحی کے نزول کے بعد کافی پریشان ہو گئے تھے۔ ویلچ کے مطابق، وحی کے موقع پر محمد کو ہلا دینے والے جھٹکے اُن کے گرد لوگوں کے لئے اس بات کا ثبوت واقع ہوئے ہوں گے کہ محمد کی وحی کا مبدا واقعی مافوق الفطرت ہے ۔ تاہم ، محمد کے ناقدین ان مشاہدات کی بنا پر اُن کومجنون، کاہن اور جادوگر قرار دیتے تھے کیونکہ قدیم عرب میں کئی  ایسے لوگ اس طرح کےتجربات  کےمدّعی تھے۔ویلچ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس طرح کے مشاہدات محمد کے ابتدائی دعوٰی نبوت سے پہلے کے ہیں یا بعد کے۔
قرآن محمد کو اُمّی قرار دیتا ہےجس کا عام طور پر ’’ان پڑھ‘‘ مطلب لیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب  دراصل کچھ پیچیدہ ہے۔قرون وسطیٰ کے مفسّرین جیسا کہ طبری کے مطابق اس اصطلاح کے دو مطالب ہیں:پہلا تو یہ کہ عمومی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا قابل نہ ہونا جبکہ دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب اور صحائف سے لاعلم ہونا (اگرچہ اکثر مفسّرین پہلے مطلب کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، محمد کا ناخواندہ ہونا آپ کی نبوّت کی صداقت کی ایک دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہ  امام فخر الدّین رازی کہتے ہیں کہ، اگر محمد لکھنے پڑھنے پر پوری مہارت رکھتے ہوتے تو اُن پر یہ شبہ کیا  جا سکتا تھا کہ اُنہوں نے اپنے آباواجداد کی کتب پڑھی ہوں گی۔ کچھ عالم جیسا کہ واٹ دوسرے معنی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
  1. http://cal.huc.edu/searchroots.php?pos=N&lemma=qryn
  2. http://www.britannica.com/eb/article-68890/Quran
  3. http://www.britannica.com/eb/article-68890/Quran
  4. القرآن:۷۵:۱۷
  5. القرآن: ۷:۲۰۴
  6. القرآن: ۲۰:۲
  7. القرآن: ۲۵:۳۲