صحافت میں یہ تاثر عام ہے کہ خواتین مشکل موضوعات اور بیٹس کی کوریج نہیں کرسکتیں۔ اس وجہ سے صحافت میں خواتین کی رو داد گوئی اور خبروں کی پیش کش کو کم زور آور کاموں پر محدود کیا گیا ہے۔ نیوز روم میں عموما رپورٹر خواتین کو موسم، صحت اور تعلیم کے شعبوں کی کوریج دے دی جاتی ہے۔ یہ ایک خود ساختہ پیکج ہے یعنی جو لڑکی موسمیات کور کرے گی وہی صحت، انسانی حقوق، غیر سرکاری تنظیموں اور تعلیم کے معاملات دیکھے گی۔ بہ طور خاص بر صغیر میں میڈیا اور کئی ترقی پزیر ممالک میں میں سیاست، عدالت اور کرکٹ پرائم ٹائم پر قابض رہتے ہیں۔ ایسے میں صحت، تعلیم اور موسم کی خبریں غیر اہم تصور کی جاتی ہیں اور ان خبروں کو فائل کرنے والی خاتون صحافی خبروں سے بھی زیادہ غیر اہم ہیں، حالانکہ یہ صورت حال اب بدل رہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خاتون رپورٹرز کی خبروں سے زیادہ ان کے کپڑوں، میک اپ، انداز و اطوار پر کمنٹس کیے جاتے ہیں۔ کامیاب خواتین صحافیوں سے جلنے والے ان کی خبروں اور تحریروں کو ان کے قابل اور لائق فائق دوستوں کی مرہون منت قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی خاتون صحافی کا شوہر یا بھائی صحافی ہے تو خاتون کی کامیابی کا سہرا گھر کے مرد کو دیا جاتا ہے۔[1]

ڈیجیٹل خبروں کے پلیٹ فارم دی نیوز منٹ کی بانی دھینا جندرن کی تصویر

مختلف ملکوں کی صحافت میں خواتین ترمیم

بھارت ترمیم

بھارت میں خواتین صحافیوں نے سابقہ دور کے مقابلے اب کافی ترقی کر لی ہے جب انھیں معمول کے اعتبار سے پھول پتی اور فیشن شو کی خبر نگاری کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ اگرچہ آدھی آبادی کی نمائندگی اب جنگ، خانہ جنگی ، سیاست ، مالی امور ، کھیل کود ، سائنس اور کئی دیگر موضوعات کی خبرنگاری میں بھی ہونے لگی ہے تاہم خاتون صحافیوں کو عام طور پر اجرت کم دی جاتی ہے۔ یہی نہیں، انھیں اس بات کا فیصلہ کرنے کا موقع بھی شاذ و نادر ہی ملتا ہے کہ کس قسم کی خبر نگاری پر کون مامور ہو۔ خواتین کو اب بھی بعض ایسے چیلینج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے ان کے مرد ساتھی دو چار نہیں ہوتے۔[2] تاہم برکھا دت، روبیکا لیاقت، انجنا اوم کشیپ جیسی کچھ خاتون صحافیوں نے ہمہ گونہ اور ہمہ پہلو صحافت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان ترمیم

پاکستان میں خواتین کو نسبتًا کم حساس موضوعات مثلًا موسم، صحت اور تعلیم کے شعبوں کا احاطہ کرنے بھیجا جاتا ہے۔ وہ سیاست اور کرکٹ جیسے موضوعات پر کم ہی بولتی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خواتین کو ان کی صنف کی وجہ سے پریس کلبوں کی رکنیت نہیں دی جاتی یا اگر وہ رکن ہوں بھی تو وہاں کا ماحول ایسا نہیں ہوتا کہ وہ وہاں جاسکیں۔ ایک خاتون صحافی کے مطابق کئی سال سے پریس کلب کی رکن ہونے کے باوجود بھی وہ اُسی وقت وہاں جاتی ہیں جب ان کے مرد ساتھی، انھیں وہاں ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم