سنہ 661ء میں حضرت علی علیہ السلام کے قتل کے بعد حضرت حسن ابن علی علیہ السلام نے خلافت سنبھال لی۔ اس وقت اہل بیت اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ مزید خانہ جنگی سے بچنے کے لیے حضرت حسن ابن علی علیہ السلام نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔کیونکہ صلح جنگی ماحول یا  کسی جرم کی سزاء کی معافی پہ صلح ہوتی ہے۔دیگر صلح کا اصول ہے کی کسی معاملے کی غلطی پہ صلح یا معافی سے درگزر کیا جایا یا دیت دیکر صلح کی جائی امیر شام اور امام حسن علیہ السلام کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی تھی البتہ معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت حضرت حسن پاک علیہ السلام نے خلافت کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا مگر اس شرط پر کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کریں گے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ امت مسلمہ کو جانشین چننے کا موقع دیں۔[1][2][3]

پس منظر ترمیم

معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ جزیرہ نما عرب کے علاقے شام (موجودہ سوریہ، لبنان، اردن اور فلسطین) کے گورنر تھے۔ جب علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بیعت کرنے سے انکار دیا کہ پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بدلہ لیں پھر بیعت کریں لیکن علی رضی اللہ عنہ کا موقف تھا پہلے بیعت کریں بعد میں بدلہ لیں۔ اسی اختلاف کی آڑ میں اس وقت کے منافقین درمیان میں آگئے اور اسی وجہ سے نزاع برپا ہوا۔[4] بعد میں علی رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے اور لوگوں نے ان کے فرزند حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی، پھر معاویہ رض نے حسن رض پر حملہ کر دیا۔ نتیجاً حسن رض اور معاویہ رض کی فوجوں کے درمیان بار بار جھڑپیں ہوئیں اور کوئی دو ٹوک فیصلہ نہ ہو سکا۔[2]

معاویہ رض جس نے پہلے ہی حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ مذاکرات شروع کردیے تھے اس نے اعلی سطحی قاصد بھیجے، جبکہ اس بات کا اعادہ کیا کہ حسن رض کو جانشین مقرر کریں گے جس کی گواہی ایک خط دیتی ہے اور جو کچھ ان کی خواہش ہو وہ اسے دیں گے۔ حسن نے پیشکش کو قبول کیا اور عمرو بن سلمہ الہمدانی اور اپنے سالے محمد ابن اشعث کو واپس اپنے مذاکرات کاروں کے طور پر معاویہ رض کے پاس بھیجا۔ پھر معاویہ رض نے خط لکھا کہ وہ حسن رض کے ساتھ امن اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ حسن رض اس کے بعد ان کے وارث ہوں گے۔ انھوں نے قسم کھائی کہ وہ اسے نقصان پہنچانے کی خواہش نہ کریں گے۔ اور یہ کہ وہ 1,000,000 درہم خزانہ (بیت المال) سے سالانہ اس کا وظیفہ مقرر کریں گے، ساتھ ہی ساتھ فسا اور دارابگرد کی زمینوں کا ٹیکس بھی ادا کرتے رہے گے۔ جس کو وصول کرنے کے لیے حسن رض اپنے آدمی بھیجیں گے۔ یہ خط چار قاصدوں نے مورخہ اگست 661ء میں دیکھا۔[5][6]

جب حسن رض نے خط پڑھا تو فرمایا ”وہ میرے نفس کو اُس معاملے پر مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر مجھے اس کی طمع ہوتی تو میں کیا ان سے صلح کرتا۔“[7] پھر انھوں نے معاویہ رض کے بھانجے عبد اللہ بن حارث کو واضح ہدایات کے ساتھ ان کے پاس بھیجا۔ اور ان سے کہا کہ ”جا کر اپنے ماموں سے کہو کہ اگر وہ عوام الناس کے تحفظ کی ضمانت دیں تو میں ان سے صلح پر آمادہ ہوں۔“ تب معاویہ رض نے اپنی مہر لگا کر ایک کاغذ بھیجا کہ حسن رض اس پر جو چاہیں لکھ لیں۔[2][6]

معاویہ رض نے امام حسنؑ ابن علیؑ رضی اللہ عنھما کو شام آنے کی دعوت دی، جب امام دربار معاویہ رض میں آنے لگے تو معاویہ رض نے امام سے گفتگو کے بعد ان کو اپنی طرف سے تحفے میں بہت سے زیورات اور تحائف دیے۔

جب زیورات حسن رض کو پیش کیے گئے تو انھوں نے وہ سارے تحائف ایک ضرورت مند کو دے دیے کہا؛ ”میں فاطمہ رضی اللہ عنہکا بیٹا ہوں“۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Dwight M. Donaldson (1933)۔ The Shi'ite Religion: A History of Islam in Persia and Irak۔ BURLEIGH PRESS۔ صفحہ: 66–78 
  2. ^ ا ب پ Syed Husain Mohammad Jafri (2002)۔ The Origins and Early Development of Shi’a Islam; Chapter 6۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0195793871 
  3. Shaykh Radi Aal-Yasin، Translated by Jasim al-Rasheed۔ Sulh al-Hasan (The Peace Treaty of al-Hasan (a))۔ Qum: Ansariyan Publications۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2013 
  4. "Alī ibn Abu Talib"۔ Encyclopædia Iranica۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2010 
  5. ^ ا ب Madelung 1997, p. 322
  6. Wilferd Madelung (2003)۔ ḤASAN B. ʿALI B. ABI ṬĀLEB۔ Encyclopedia Iranica