صیہونیت کا اصل مقصد یہودی لوگوں کے لئے ایک وطن قائم کرنا تھا۔ صیہونیت مختلف فلسفیوں کی تیار کردہ تحریک تھی جومقصد کے حصول کے لیے مختلف انداز کی نمائندگی اور تحریک کے آئندہ کے طریقوں کا انتخاب کر رہے تھے۔

تھیوڈور ہرتزل کو صیہونیست تحریک کے بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی 1896ء کی کتاب ڈر جڈنسٹاٹ میں، انھوں نے 20 ویں صدی کے دوران مستقبل میں یہودی ریاست کی بنیاد کا تصور دیا۔

سیاسی صیہونیت ترمیم

 
لیون پنکر نے عملی صیہونیت اختیارکی

سیاسی صیہونیت کی روس میں تھیوڈور ہرتزل اور میکس نورداؤ نے قیادت کی ۔ پہلی صہیونی مجلس میں اختیار کی گئی صیہونی تنظیم کے اس نقطہ نظر کا مقصد یہود کے لیے فلسطین میں عوامی طور پر اور قانونا جائز وطن بنانا تھا ، جس میں دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ، ابتدائی اقدامات بھی شامل تھے جن کے تحت اس علاقے کی مقتدر طاقتوں سے حکومتی امداد حاصل کرنا بھی شامل تھی۔ [2]

عملی صیہونیت ترمیم

عبرانی میں Tzionut Ma'asit ( عبرانی: ציונות מעשית‎ صوتی نقل زیونوت ماسیت)، عملی صیہونیت کی قیادت موشے لیب لیلنبلم ولیون پنسکر اور تشکیل احباء صہیون تنظیم نے کی۔صہیونیت کی اس قسم یہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ سب سے پہلے عملی طور پر یہ ضروری ہے کہ جتنا جلد ہو سکے سرزمین اسرائیل میں علیا اور آبادکاری کروائی جائے، جلد ،چاہے اگر زمین پر اختیار کا پروانہ نہ بھی ملے۔

مصنوعی صیہونیت ترمیم

کھائیم ویزمان ، لیوموٹزکن اور نہوم سوکولؤ نے اس قسم کی قیادت کی،اس کا طرز عمل پہلے دو صہیونیت کے اقسام کے مرکب کی حمایت کرتا ہے۔

 
لیبر صیہونیت کے رہنماؤں میں سے ایک، ڈؤ بیر بورچوف

عمالی صیہونیت ترمیم

نظریاتی اختلافات سے صیہونیت کے ان عام قسموں کے درمیان ایک اور قسم پیدا ہوتی ہے جس کا صیہونیت کے ساتھ کوئی ضروری واسطہ نہیں، بلکہ مستقبل کی یہودی ریاست کے کردار کے بارے ان یہودی گروہ کے لوگوں کا جامع عالمی نقطہ نظر ہے۔ نیکھمن سایرکن ، ڈؤ بیر بورچوف ، ہایم آرسولوف اور برل کیٹزنلسن کی قیادت میں عملی اور سیاسی صیہونیت کے برخلاف ، عمالی صیہونیت کا مقصد ایک زراعت پسند یہودی نجی درمیانی طبقے کی اخلاقی مساوات کی بنیاد پرمعاشرہ کا قیام تھا ۔

 
تصحیحی صیہونیت کے بانی زیو جابوتنسکی

تصحیحی صیہونیت ترمیم

ابتدائی طور پرزیو جابوتنسکی نے تصحیحی صیہونیت کی قیادت کی ، بعد ازاں اس کے جانشین میناخم بیگن (جو بعد میں وزیر اعظم بنے) نے قیادت کی،اس صہیونیت کا مقصدیہودی قومیت کے رومانوی عناصراور صہیونی قومی سوچ اور یہودی ریاست کی تشکیل میں ارض مقدسہ کے یہودی لوگوں کے تاریخی ورثے کے بنیادی جزو کے طور پر اہمیت اجاگر کرنا تھا۔ انھوں نے آزادخیالی اور خصوصاً اقتصادی آزاد خیالی کی حمایت کی، جبکہ عمالی صیہونیت اور ارض اسرائیل میں کمیونسٹ (اشتمالی) سماج کی تشکیل کی مخالفت کی۔ تصحیحی صیہونیت عرب دہشت گردی کے کسی بھی قسم کے پھیلاؤ کی مخالفت کرتی ہے اور اسرائیلی زمین پر یہودی برادری پر حملہ آور عرب گروہوں کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی حمایت کرتی ہے۔ اس نظریے کی وجہ سے تصحیحی قیادت کا ایک دھڑا زیر زمین قومی عسکری تنظیم ایرگن قائم کرنے کے لیے تحریک سے ٹوٹا ۔ اس سلسلے کی بھی عظیم تر اسرائیلکے حامیوں کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔

ثقافتی صیہونیت ترمیم

 
عہد ہعام (اشر گنسبرگ)


احدہعام (اشر ذوی ہیرش گنسبرگ) نے اس کی قیادت کی۔ ثقافتی صیہونیت کی رائے تھی کہ کیا کہ یہود کی قومی احیاء کی تکمیل کو اسرائیل میں ایک ثقافتی مرکز اور دیار غیر میں یہودی تعلیمی مرکز بنا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

انقلابی صیہونیت ترمیم

اوراہام سترن ، اسرائیل ایلداد اور اری ذوی گرینبرگ نے اس کی قیادت کی۔ انقلابی صیہونیت نے صیہونیت کو یہودی جلاوطنوں کو جمع کرنے، عبرانی کی بطور گفتاری زبان احیاء اور یہودی مملکت دوبارہ بحالی کے لیے انقلابی جدوجہد کی حیثیت سے دیکھا۔ [3] 1940ء کی دہائی کے دوران بطور اراکین لحی ، انقلابی صیہونیت کے بہت سے پیروکار انتداب فلسطین کو ختم کرنے اور یہود کی سیاسی آزادی کے لیے راستے کو ہموار کرنے کی کوشش میں برطانوی انتظامیہ کے خلاف گوریلا لڑائی لڑتے رہے۔ قیام اسرائیل کے بعد اس سلسلے کے اہم شخصیات یہ دلیل دیتی رہیں کہ صیہونیت کا مقصد کبھی تخلیق اسرائیل نہ تھا بلکہ یہ تو محض صیہونیت کے مقصد کے ادرک کے لیے ایک آلہ تھا، جسے وہ مالخوت یسرائیل (مملکت اسرائیل )کہتے تھے۔ [4] انقلابی صیہونیوں پر اکثر تصحیحی صیہونیوں کے ساتھ مغالطہ ہو جایا کرتا ہے درحقیقت یہ دونوں اقسام کئی پہلوؤں میں نظریاتی طور پر مختلف ہیں۔ حالانکہ تصحیحی زیادہ تر سیکولر(غیر مذہب) قوم پرست تھے جن کی توقع تھی کہ برطانوی مملکت میں ہی ایک یہودی ریاست دولت مشترکہ کے طور پر حاصل کرلی جائے، انقلابی صیہونیوں نے قومی مسیحیت کی ایک شکل کی توثیق کی جو ایک وسیع یہودی بادشاہت اور بیت المقدس میں ہیکل کی تعمیر کے متمنی تھے۔ [5] انقلابی صیہونیت عام طور پر سامراج مخالف نظریات کو اختیار کرتا ہے اور اس کے پیروؤں میں دونوں دائیں اور بائیں بازو کے قومپرست شامل ہیں ۔ اس قسم کی بھی عظیم تر اسرائیل کے حامیوں کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔

مذہبی صیہونیت ترمیم

مزراہی(مذہبی صیہونیت) کے بانی اسحاق یعقوب رینز اورابراہیم اسحاق کک نے اس قسم کی قیادت کی ۔ مذہبی صیہونیت نے اپنی یہ رائے برقرار رکھی کہ یہودی قومیت اور قیام ریاست اسرائیل تورات کی رو سے مذہبی فرض ہے ۔ یہودیوں غیر سیکولر(لادین)طبقہ کے کچھ دھڑوں کے دعوی کے برخلاف کہ ارض اسرائیل کی نجات صرف مسیح کے آنے کے بعد ہو گی، جو یہود کی اس آرزو کو پورا کرے گا، جبکہ یہ قسم اس عقیدے پر قائم ہے کہ ارض یہود کی نجات کی انسانی کارروائیاں ہی مسیح کے نکلنے کا باعث ہوں گی، جیساکہ ان کا نعرہ ہے کہ : ( "سرزمین اسرائیل ، بنی اسرائیل کے لیے بمطابق شریعت اسرائیل " عبرانی: ארץ ישראל לעם ישראל לפי תורת ישראל‎ ). آج یہ طبقہ عام طور پر "مذہبی قومیت پسند" یا " اسرائیلی آبادکار " کے طور پر جانا جاتا ہے، اس سلسلہ کی بھی عظیم تر اسرائیل کے حامیوں کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔

اصلاحی صیہونیت ترمیم

اصلاحی صیہونیت ، جسے ترقی پسند صہیونیت بھی کہتے ہیں ، یہودیت کی اصلاح یا ترقی پسند شاخ کے صیہونی بازو کا نظریہ ہے۔ امریکی اصلاحاتی صہیونی اتحاد امریکی اصلاحاتی تحریک کی صیہونی تنظیم ہے۔ ان کا مشن "اصلاحی یہود کے مقدس زندگیوں اور یہودی شناخت کے لیے اسرائیل کو بنیاد بنانے کی جدوجہد کرنا۔اسرائیل کو بطورکثیر پسند، منصفانہ اور یہودی جمہوری ریاست مزید بہتر بنانے کی سرگرمیوں میں یہ صیہونی تنظیم و اتحاد سرفہرست ہے ۔ " اسرائیل میں، اصلاحی صیہونیت اسرائیل ترقی پسند یہود کی تحریک کے ساتھ منسلک ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "ترجمہ سکھلائی" 
  2. "Jewish Virtual Library: The First Zionist Congress and the Basel Program"۔ 06 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 دسمبر 2021 
  3. Israel Eldad, The Jewish Revolution, pp. 47–49
  4. Israel Eldad, The Jewish Revolution, pp. 45
  5. Israel Eldad, Israel: The Road to Full Redemption, p. 37 (Hebrew) and Israel Eldad, "Temple Mount in Ruins"

مزید دیکھیے ترمیم

  • عیسائی صیہونیت
  • نو صیہونیت
  • بعد از صیہونیت
 باب یہودیت

بیرونی روابط ترمیم