ڈاکٹر عبد الرَّب عرفان اردو فارسی کے جید عالم تھے۔

ڈاکٹرعبد الرب عرفان
عبد الرب عرفان
ادیب
پیدائشی نامعبد الرب
قلمی نامعبد الرب عرفان
تخلصعرفان
ولادت8 جنوری 1936ء
ابتداکامٹی
وفات20 اپریل2001ء
اصناف ادبشاعری
نثر
ذیلی اصنافنظم
غزل

ولادت و ابتدائی زندگی ترمیم

ان کی پیدائش 8 جنوری 1936ء کو کامٹی ضلع ناگپور کے متوسط خاندان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کا مٹی میں ہی ہوئی۔ ربانی ہائی اسکول کا مٹی سے 1955ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ 959اء میں ناگپور یونیورسٹی سے بی۔ اے میں نمایاں کا میا بی حاصل کی بعدہٗ 1961ء میں فارسی اور1971ء میں اردو ادب میں ایم اے کیا۔ دونوں امتحانات میں میرٹ میں فرسٹ رہے۔ فارسی ادب میں انھوں نے آرٹس فیکلٹی میں سب سے زیادہ نمبرات حاصل کیے اور خان بہادر ایم ایم ملک گولڈ میڈل کے حقدار قرار پائے۔ 979اء میں انھوں نے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان نعمت خان عالی، شخصیت، فن اور کارنامے تھا۔

تدریس اور ادبی خدمات ترمیم

نومبر 1961ء میں عبد الرب صاحب کا تقرر گورنمنٹ و در بھ مہا ودیا لیہ امراوتی میں بحیثیت لکچرار ان فارسی، عمل میں آیا۔ اس کے بعد 1982 ءمیں وی این گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ سو شل سائنس ناگپور میں تبادلہ ہو گیا۔ یہاں وہ جنوری 1996تک فارسی ادب پڑھا تے رہے۔ ریٹائر منٹ کے وقت وہ صدرشعبۂ فارسی کے منصب پر فائز تھے۔ نیز ناگپور یونیورسٹی میں اردو فارسی بورڈ آف اسٹڈیز کے چیئر مین رہے۔ مرحوم ڈاکٹر عبد الرَّب عرفان جدید فارسی زبان و ادب پر عبور رکھتے تھے وہ فارسی زبان و ادب پر لکھتے اور اسی پر سوچتے تھے۔ ایسے با ذوق اور با کمال حضرات اب نظر نہیں آتے۔ وہ خلیق، شریف النفس، وضعدار اور منکسرالمزاج تھے۔ ان کی شخصیت نستعلیق تھی۔ ان میں تکبّر اور غرور کا شائبہ تک نہ تھا۔ بظاہر کم گو نظر آتے تھے۔ دوران گفتگو الفاظ کا تول تو ل کر اور مناسب استعمال کر تے۔ لا یعنی اور غیر ضروری الفاظ وہ اپنی گفتگومیں کم ہی استعمال کرتے۔ کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے تو ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ سوچ کر کہتے۔ مگر موضوع کا حق ادا کرتے۔ ڈاکٹر صاحب جب مجلس میں بیٹھتے تو لطیفوں سے محفل کو زعفران زار بنا دیتے۔ مگر ان کے انداز بیان کو بڑے صبر کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا اور ان کے لطائف کو بڑے دھیان سے سننا پڑتا۔ اگر کسی نے ذرا توجہ ادھرادھر کی تو لطیفے کا سارا لطف ختم ہو جا تا۔ ڈاکٹر عبد الرَّب عرفان علم کا سمندر تھے۔ اور اس سمندر میں ان گنت لعل و گہر چھپے ہوئے تھے۔ مگر افسوس وہ پوری طرح کھل نہ سکے، بس جو ان کے قریب ہو ا' سیراب ہوا اور اپنے ظرف کے مطابق فیض یاب ہوا۔