عزل' کا معنی یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی یا باندی سے جماع کرے اور جب انزال کرنے کے قریب ہو جائے تو اپنے [[عضو تناسل] کو نکال کر اپنے پانی (منی) کو عورت کی شرمگاہ سے باہر خارج کر دے۔ یہ اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ کہیں عورت کا حمل نہ ٹھہر جائے یا پھر اسے مرد یا عورت یا جنین کی صحت کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے

ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟“۔ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: ”اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے“ اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ ”جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: 1- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

2- یہ اس کے علاوہ اور بھی طرق سے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے،

3- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،

4- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قرار دیا ہے۔

چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں "عزل" بلاکراہت جائز ہے:

1۔۔ عورت اتنی کمزور ہو کہ حمل کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کمزوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو "عزل" جائز ہے۔

2۔۔ دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہواور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔

4۔۔ اسی طرح طویل سفر میں ہو یا دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

مذکورہ صورتوں میں عزل کرنے کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے ، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔

بعض حضرات جن میں کچھ صحابہ بھی شامل ہیں اس کو ناجائز کہتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ عزل کرنا جائز ہے چنانچہ درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی خاص مصلحت یا عذر کی بنا پر عزل کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اپنی لونڈی سے عزل کرنا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی جائز ہوگا اسی طرح اگر کسی دوسرے کی لونڈی اپنے نکاح میں ہو تو اس کے مالک کی اجازت حاصل کرنے کے بعد اس سے عزل کرنا جائز ہو گا ۔ حضرت امام شافعی کے بارے میں سید نے یہ لکھا ہے کہ ان کے نزدیک بھی اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی عزل کرنا جائز ہے لیکن لونڈی خواہ اپنی مملوکہ ہو یا منکوحہ ہو اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل کرنا جائز ہے ۔ اور امام نووی نے جو شافعی المسلک ہیں) یہ لکھا ہے کہ ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک عزل کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ انقطاع نسل کا سبب ہے۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے پاس لونڈی ہے جو ہماری خدمت کرتی ہے اور میں اس سے جماع بھی کرتا ہوں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو عزل کر لیا کرو لیکن اس لونڈی کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہو چکی ہے وہ ضرور پیدا ہو گی ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک وہ شخص نہیں آیا اور پھر جب آیا تو کہنے لگا کہ میری لونڈی حاملہ ہو گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے تو تمھیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہو چکی ہے وہ ضرور پیدا ہوگی (مسلم)

حوالہ جات ترمیم