حضرت عزیر (علیہ السلام) اسلام کے مطابق اللہ کے نبی تھے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک سو سال بعد زندہ کیا تھا۔

عزیر
(عربی میں: عزير ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
مقام وفات یروشلم  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ کاہن  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ان کے والد اور سلسلہ نسب کے بعض دوسرے ناموں میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ حضرت ہارون بن عمران (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ ابن عساکر ان کے والد کا نام جروہ بتاتے ہیں اور بعض سوریق اور بعض سروخا بیان کرتے ہیں اور صحیفہ عزرا میں ہے کہ ان کا نام خلقیاہ تھا۔ [1]

قرآن عزیز اور حضرت عزیر (علیہ السلام) ترمیم

قرآن عزیز میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام صرف ایک جگہ سورة توبہ میں مذکور ہے اور اس میں بھی صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہود عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں جس طرح نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ اس ایک جگہ کے سوا قرآن میں اور کسی مقام پر ان کا نام لے کر ان کے حالات و واقعات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے : وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [2] ” اور یہودیوں نے کہا : عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا ‘ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ‘ یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبانوں سے نکالی ہوئی۔ ان لوگوں نے بھی ان ہی کی سی بات کہی جو اس سے پہلے کفر کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنت ‘ یہ کدھر بھٹکے جا رہے ہیں۔ “ البتہ سورة بقرہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک برگزیدہ ہستی کا اپنے گدھے پر سوار ایک ایسی بستی سے گذر ہوا جو بالکل تباہ و برباد اور کھنڈر ہو چکی تھی اور وہاں نہ کوئی مکین باقی رہا تھا اور نہ کوئی مکان ‘ مٹے ہوئے چند نقوش باقی تھے جو اس کی بربادی اور تباہی کے مرثیہ خواں تھے۔ ان بزرگ نے یہ دیکھا تو تعجب اور حیرت سے کہا کہ ایسا کھنڈر اور تباہ حال ویرانہ پھر کیسے آباد ہوگا اور یہ مردہ بستی کس طرح دوبارہ زندگی اختیار کرے گی۔ یہاں تو کوئی بھی ایسا سبب نظر نہیں آتا ؟ یہ ابھی اسی فکر میں غرق تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ ان کی روح قبض کرلی اور سو برس تک اسی حالت میں رکھا۔ یہ مدت گذر جانے کے بعد اب ان کو دوبارہ زندگی بخشی اور تب ان سے کہا : بتاؤ کتنا عرصہ اس حالت میں رہے ہو ؟ وہ جب تعجب کرنے پر موت کی آغوش میں سوئے تھے تو دن چڑھے کا وقت تھا اور جب دوبارہ زندگی پائی تو آفتاب غروب ہونے کا وقت قریب تھا۔ اس لیے انھوں نے جواب دیا : ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایسا نہیں ہے بلکہ تم سو برس تک اسی حالت میں رہے ہو اور اب تمھارے تعجب اور حیرت کا یہ جواب ہے کہ تم ایک طرف اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں مطلق کوئی تغیر نہیں آیا اور دوسری جانب اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا جسم گل سڑ کر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے اور پھر ہماری قدرت کا اندازہ کرو جس چیز کو چاہا کہ محفوظ رہے تو سو برس کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی قسم کے موسمی تغیرات نے اثر نہ کیا اور محفوظ وسالم رہی اور جس چیز کے متعلق ارادہ کیا کہ اس کا جسم گل سڑ جائے تو وہ گل سڑ گیا اور اب تمھاری آنکھوں دیکھتے ہم اس کو دوبارہ زندگی بخش دیتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ ہم تم کو اور تمھارے واقعہ کو لوگوں کے لیے ” نشان “ بنادیں اور تاکہ تم یقین کے ساتھ مشاہدہ کر لو کہ خدائے تعالیٰ اس طرح مردہ کو زندگی بخش دیتا اور تباہ شدہ شے کو دوبارہ آباد کر دیتا ہے۔ چنانچہ جب اس برگزیدہ ہستی نے قدرت الٰہی کے یہ ” نشانات “ دیکھنے کے بعد شہر کی جانب نظر کی تو اس کو پہلے سے زیادہ آباد اور با رونق پایا۔ تب انھوں نے اظہار عبودیت کے بعد یہ اقرار کیا کہ بلاشبہ تیری قدرت کاملہ کے لیے یہ سب کچھ آسان ہے اور مجھ کو علم الیقین کے بعد عین الیقین کا درجہ حاصل ہو گیا :

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [3] ” اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا ‘ جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا اس بستی کی موت (تباہی ) کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا (آباد کرے گا) پس اللہ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سو برس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کر دیا۔ اللہ نے دریافت کیا : تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے۔ اس نے جواب دیا : ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ نے کہا : (ایسا نہیں ہے بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے پس تم اپنے کھانے پینے ( کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے) اور (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لیے ” نشان “ بنائیں اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے اور آپس میں جوڑتے ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہو گیا تو اس نے کہا : میں یقین کرتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ ان آیات کی تفسیر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص کون تھا جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے جواب میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا تھا کہ تم یروشلم جاؤ ‘ ہم اس کو دوبارہ آباد کریں گے ‘ جب یہ وہاں پہنچے اور شہر کو تباہ اور کھنڈر پایا تو بربنائے بشریت یہ کہہ اٹھے کہ اس مردہ بستی کو دوبارہ کیسے زندگی ملے گی ؟ اور ان کا یہ قول بہ شکل انکار نہیں تھا بلکہ تعجب اور حیرت کے ساتھ ان اسباب کے متلاشی تھے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے برگزیدہ بندے اور نبی کی یہ بات بھی پسند نہیں آئی کیونکہ ان کے لیے یہ کافی تھا کہ خدا نے دوبارہ اس بستی کی زندگی کا وعدہ فرما لیا ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ وہ معاملہ پیش آیا جس کا ذکر مسطورہ بالا آیات میں ہے اور جب وہ زندہ کیے گئے تو یروشلم (بیت المقدس) آباد ہو چکا تھا۔ حضرت علی ‘ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ‘ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور قتادہ ‘ سلیمان ‘ حسن کا رجحان اسی جانب ہے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر (علیہ السلام) سے متعلق ہے۔ [4] اور وہب بن منبہ اور عبد اللہ بن عبید کا اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کا قول یہ ہے کہ یہ شخص حضرت ارمیا ( یرمیاہ) نبی تھے۔ ابن جریر طبری (علیہ السلام) نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی قول راجح ہے۔ [5]

نسب ترمیم

عزیر (علیہ السلام) کے والد اور سلسلہ نسب کے بعض دوسرے ناموں میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ حضرت ہارون بن عمران (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ ابن عساکر ان کے والد کا نام جروہ بتاتے ہیں اور بعض سوریق اور بعض سروخا بیان کرتے ہیں اور صحیفہ عزرا میں ہے کہ ان کا نام خلقیاہ تھا۔

تاریخی بحث ترمیم

اور یہ اس لیے کہ جبکہ قرآن عزیز نے اس ہستی کا نام ذکر نہیں کیا اور نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا مآخذ بھی وہ روایات و اقوال ہیں جو وہب بن منبہکعب احبار اور حضرت عبداللہ بن سلام تک پہنچتے ہیں اور انھوں نے جن کو اسرائیلی واقعات سے نقل کر کے بیان کیا ہے تو اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لیے صرف ایک یہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ توراۃ اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے تو اس حقیقت کے پیش نظر جب ہم مجموعہ توراۃ کے صحائف انبیا (علیہم السلام) اور تاریخی بیانات پر غور کرتے ہیں تب یہ تفصیلات ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ١ ؎ [6] بنی اسرائیل کی سرکشی اور شرارت حد سے تجاوز کرچکی ہے اور ظلم و فساد کا بازار گرم ہے کہ خدا کی جانب سے اس زمانہ کے پیغمبر یرمیاہ (علیہ السلام) پر وحی آتی ہے کہ بنی اسرائیل میں منادی کر دو کہ وہ ان حرکات بد سے باز آجائیں ورنہ گذشتہ قوموں کی طرح ان کو تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ یرمیاہ (علیہ السلام) نے خدا کا یہ پیغام جب بنی اسرائیل تک پہنچایا تو انھوں نے کوئی اثر قبول نہ کیا اور ظلم و شرارت میں اور اضافہ اور یرمیاہ (علیہ السلام) کے ساتھ مخول شروع کر دیا اور ان کو زندان میں ڈال دیا۔ اس حالت میں بھی یرمیاہ (علیہ السلام) نے ان کو بتایا کہ وہ بابل کے بادشاہ کے ہاتھوں برباد ہوں گے اور وہ ان کو قید کر کے بابل لے جائے گا اور یروشلم کو مٹایا جائے گا [7]

تقریباً ساتویں صدی قبل مسیح کا وسط تھا کہ بابل میں نبو کد نصر (بخت نصر) کا ظہور ہوا اور اس نے اپنی قاہرانہ اور جابرانہ طاقت سے قرب و جوار کی تمام حکومتوں کو مسخر اور زیر کر لیا اور تھوڑے عرصہ میں اس نے فلسطین پر پے بہ پے تین حملے کر کے بنی اسرائیل کو شکست فاش دے کر یروشلم اور فلسطین کے تمام علاقہ کو برباد کر ڈالا اور تمام بنی اسرائیل کو قید کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکاتا ہوا بابل لے گیا اور توراۃ کے تمام نسخوں کو خاکستر کر دیا اور ایک نسخہ بھی اسرائیلیوں کے ہاتھ میں محفوظ باقی نہ رہا۔ جب بخت نصر اسرائیلی گھرانوں کو قید کر کے غلام بنا رہا تھا تو کسی شخص نے اس سے یہ کہا کہ یہاں ایک شخص یرمیاہ زندان میں قید ہے ‘ اس نے تیرے اس حملہ سے پہلے ان سب حالات کے متعلق پیشین گوئی کر کے بنی اسرائیل کو ڈرایا تھا ‘ مگر اس کی قوم نے اس کی بات پر کان نہ دھرا اور اس کو زندان میں ڈال دیا۔ بخت نصر نے یہ سنا تو یرمیاہ (علیہ السلام) کو قید خانہ سے باہر نکالا اور ان سے بات چیت کرتا رہا۔ یرمیاہ (علیہ السلام) کی علم و دانش سے معمور گفتگو سن کر اس نے خواہش کی کہ وہ بھی اس کے ساتھ بابل چلیں وہ ان کو احترام سے رکھے گا مگر حضرت یرمیاہ نے یہ کہہ کر اس کی خواہش کو رد کر دیا کہ جبکہ میری قوم اس ذلت کے ساتھ بابل جارہی ہو ‘ میں اس عزت کے مقابلہ میں اپنی موجودہ حالت کو ترجیح دیتا ہوں۔ [8]

چنانچہ انھوں نے یروشلم سے دور کسی جنگل میں بود و ماند اختیار کرلی اور یرمیاہ نبی کے صحیفہ میں ہے کہ انھوں نے وہیں بیٹھ کر بابل میں اسرائیلیوں کو یہ پیشین گوئی تحریر کے ذریعہ پہنچائی تھی کہ بنی اسرائیل ستر سال بابل میں اس ذلت و خواری کے ساتھ غلام رہیں گے اور اس کے بعد وہ پھر اپنے وطن میں آکر بسیں گے۔ [9] چنانچہ بخت نصر کی ہلاکت کے عرصہ دراز کے بعد جب تقریباً 539 ق م میں فارس کے بادشاہ سائرس (کیخسرو) نے بابل کے بادشاہ بیل شاہ زار کو شکست دے کر فارس کو اس کے بے پناہ مظالم سے نجات دلائی تو اسی زمانہ میں اس نے بنی اسرائیل کو بھی آزاد کیا اور یروشلم اور ہیکل کی تعمیر کے لیے ان کو اجازت دی۔ شاہ خورش (کیخسرو) فتح بابل کے بعد تقریباً دس برس اور زندہ رہا اور اسی دوران میں بنی اسرائیل آزاد ہو کر بیت المقدس کی تعمیر میں مشغول ہوئے مگر جیسا کہ عزرا کے صحیفہ سے معلوم ہوتا ہے یہ تعمیر اس کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکی اور درمیان میں بعض افسروں نے ایسی دراندازیاں کیں کہ دو مرتبہ اسرائیلیوں کو اس کی تعمیر کچھ مدت کے لیے روک دینی پڑی اور کیخسرو کے بعد دارا اور دارا کے بعد ارد شیر کے زمانے میں جاکر وہ اس کو دوبارہ مکمل کرسکے ١ ؎ اور یروشلم (بیت المقدس) پھر ایک مرتبہ پہلے سے زیادہ بارونق شہر نظر آنے لگا۔ ان تمام تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ بخت نصر کے یروشلم کو تباہ کرنے اور کیخسرو سے لے کر ارد شیر کے زمانے تک دوبارہ اس کے مکمل آباد ہوجانے کے درمیان جو ایک طویل مدت ہے وہی وہ وقفہ ہے جس پر یرمیاہ (علیہ السلام) کو وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیات میں کیا گیا ہے۔ قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ یرمیاہ (علیہ السلام) نے بخت نصر کے ساتھ بابل جانے سے انکار کر دیا اور وہ بیت المقدس کی اس تباہ حالی سے گھبرا کر دور کسی جنگل میں گوشہ گیر ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بذریعہ وحی یہ حکم دیا ہوگا کہ وہ اس ویرانہ میں جا کر رہیں جو آج اگرچہ بنی اسرائیل کی تباہ کاریوں کی بدولت تباہ حال ہے مگر ہمیشہ سے نبیوں کی مقدس سرزمین رہا ہے اور یہ کہ ہم دوبارہ اس کو آباد کریں گے اور جب حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) خدا کے حکم سے وہاں پہنچے اور ان کی نگاہ میں اس کی بربادی کا پورا نقشہ پھر گیا تو انھوں نے حسرت و افسوس اور تعجب و حیرت کے ساتھ دل میں یا زبان سے کہا ہوگا کہ کون سے ایسے اسباب پیدا ہوں گے جن کے ذریعہ خدائے تعالیٰ اس مردہ بستی کو دوبارہ زندگی بخشے گا اور پھر وہ سب کچھ پیش آیا جو زیر بحث آیات میں مذکور ہے اور اگر ہم اس پر یہ اور اضافہ کر دیں تو بے جا نہ ہوگا کہ خدا کی حکمت و مصلحت کا یہ تقاضا ہوا کہ جبکہ ابھی یروشلم کی دوبارہ زندگی اور آبادی میں طویل مدت باقی ہے اور یرمیاہ (علیہ السلام) قوم سے الگ اس ویرانہ میں رہیں گے تو یہ ان کی زندگی کے لیے ناقابل برداشت سانحہ ہوگا ‘ لہٰذا رحمتِ حق نے ان کے اس متعجبانہ سوال کو بہانہ بنا کر اس عرصہ کے لیے ان کو موت کی آغوش میں سلا دیا اور اس وقت بیدار کیا جب کہ یروشلم پہلے کی طرح خوب آباد اور بارونق ہو چکا تھا۔ واقعات وحادثات کی اس پوری مدت میں حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) کی عمر کا تخمینہ تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوتا ہے اور یہ مدت اس زمانہ کی عمر طبعی کے لحاظ سے کوئی تعجب خیز نہیں ہے۔ اس تحقیق کی تائید حضرت یسعیاہ (علیہ السلام) کی اس پیشین گوئی سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے سائرس نجات دہندہ بنی اسرائیل کے متعلق ڈیڑھ سو سال قبل کی تھی ‘ ٢ ؎ اس لیے کہ یسعیاہ (علیہ السلام) نبی کے انتقال سے متصل ہی یرمیاہ (علیہ السلام) کا ظہور ہوا۔ لہٰذا نجات بنی اسرائیل کی درمیانی مدت کا معاملہ ان ہی کے ساتھ پیش آسکتا ہے۔ [10] اس کے برعکس حضرت عزیر (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے متعلق جو تفصیلات توراۃ اور اسرائیلیات میں منقول ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بابل کی اسارت کے زمانہ میں وہ صغیر سن تھے اور اسرائیلیوں کے ساتھ بابل ہی میں رہے اور چالیس سال کی عمر میں ” فقیہ “ تسلیم کر لیے گئے اور وہیں منصب نبوت سے سرفراز ہوئے اور یروشلم کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف دارا اور ارد شیر کے درباروں میں جس وفد نے کوششیں کیں ان میں بھی یہی پیش پیش رہے ہیں اور توراۃ کے ناپید ہوجانے کے بعد یروشلم میں اس کی تجدید ان ہی کے فیضان نبوت کا اثر تھا۔ غرض بنی اسرائیل کی اسیری بابل سے لے کر رہائی اور تعمیر و آبادی بیت المقدس تک کی درمیانی مدت میں حضرت عزیر (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ ہیں وہ شواہد و قرائن جن کی وجہ سے ہم نے مفسرین کے راجح قول کو مرجوح اور مرجوح قول کو راجح کہنے کی جسارت کی ہے۔ واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال۔

مسطورہ بالا ہر دو اقوال کے علاوہ ان آیات کے مصداق متعین کرنے میں بعض اور بھی اقوال ہیں ‘ مثلاً حزقیل (علیہ السلام) یا بنی اسرائیل میں سے کوئی غیر معلوم شخص۔ [11]

واقعہ کی غلط تفسیر ترمیم

سورة کہف کے تفسیری فوائد سپرد قلم کرتے ہوئے مولانا آزاد نے ایک جگہ سورة بقرہ کے اس واقعہ کو حضرت حزقیل (علیہ السلام) کا مکاشفہ قرار دیا ہے جو صحیفہ حزقیل میں قریب قریب اسی طرح مذکور ہے۔ [12] ہم کو سخت تعجب ہے اور حیرت بھی کہ جب قرآن عزیز نے اس واقعہ کو صاف اور صریح طریقہ پر ایک شخص کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک معین مدت کے لیے موت کی آغوش میں سلا دیا اور پھر زندہ کر کے اس سے موت کی مدت کے بارے میں سوال کیا۔ جب وہ صحیح جواب نہ دے سکا تو خود اس کی تصحیح فرمائی اور اس سے متعلق شواہد کا مشاہدہ کرایا تو کس طرح مولانا آزاد نے حزقیل کے مکاشفہ کو اس واقعہ کی تفسیر یا تاویل قرار دیا ؟ غور کیجئے کہ ایک برگزیدہ ہستی کا ایک ایسی کھنڈر اور ویران بستی پر گذر ہوا جو کبھی بہت ہی بارونق آباد بستی تھی اور جہاں لاکھوں انسان بس رہے تھے { اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّ ھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا } [13] اس نے یہ دیکھا تو دل میں یہ سوچا یا زبان سے کہا کہ نہ معلوم کس طرح یہ مردہ بستی پھر زندہ ہوگی ۔ { قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا } [14] تب اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ اس کی روح قبض کرلی اور سوبرس تک اسی حالت میں رکھ کر دوبارہ زندہ کر دیا { فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ } [15] اور زندگی بخشنے کے بعد اس ہستی سے دریافت فرمایا : بتاؤ تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے ؟ برگزیدہ ہستی نے جواب دیا : ایک دن یا دن کا بعض حصہ ۔ { قَالَ کَمْ لَبِثْتَط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ } [16] چونکہ جواب غلط تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح اور حقیقت حال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : نہیں بلکہ سوبرس تک موت کی آغوش میں سوتے رہے ہو ۔ { قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ } [17] اور پھر اپنی قدرت کاملہ کے تصرفات کا مشاہدہ کرایا کہ ایک جانب اس طویل مدت کے باوجود کھانے پینے کی تمام چیزیں ترو تازہ اور موسمی اثرات سے محفوظ تھیں اور دوسری جانب ان کی سواری کا گدھا گل سڑ کر بوسیدہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا : { فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ } [18] اور پھر فرمایا کہ ہم نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تم کو دوسروں کے لیے اپنی قدرت کاملہ کا ایک ” نشان “ بنادیں { وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ } [19] پھر ان تمام باتوں کے بعد اس بزرگ ہستی کو مشاہدہ کرایا کہ کس طرح ہڈیوں نے آپس میں ترتیب پائی پھر ان پر گوشت چڑھا اور پھر چمڑا اور ان کا گدھا زندہ کھڑا ہو گیا { وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا } [20] یہ سب کچھ دیکھ لینے اور مشاہدہ کرلینے کے بعد جب علم الیقین نے عین الیقین کا درجہ حاصل کر لیا تو فوراً اس برگزیدہ ہستی نے اعتراف کیا کہ بیشک خدا کی قدرت کاملہ کے لیے اسباب و وسائل کی حاجت نہیں۔ وہ جس طرح چاہے بے روک ٹوک تصرف کرے کوئی اس کے لیے مانع نہیں ہے : { فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗلا قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} [21] اب ان صاف اور واضح آیات پر دوبارہ غور کیجئے اور سوچیئے کہ قرآن عزیز نے اس واقعہ کو ایک ” حقیقی واقعہ “ کی حیثیت سے بیان کیا ہے یا مجاز کے طور پر ایک ” مکاشفہ “ کی شکل میں ؟ نیز کیا حزقیل (علیہ السلام) کے مکاشفہ اور ان آیات میں ذکر کردہ واقعہ کے درمیان مشابہت کی وجہ سے دونوں کو ایک بتانا کسی طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ پس بلاشبہ مولانا آزاد کی یہ تاویل ” تاویل باطل “ ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہو سکتا ہے کہ اگر حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) کو یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے قریب قریب حضرت حزقیل (علیہ السلام) کا ایک مکاشفہ بھی ہے جو مجموعہ توراۃ کے صحیفہ حزقیل (علیہ السلام) میں مذکور ہے اس مکاشفہ میں انھوں نے بنی اسرائیل کی سوکھی ہوئی ہڈیوں کو دوبارہ زندہ ہوتے ہوئے دیکھا اور خدائے تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ بنی اسرائیل اب ناامید ہو چکے ہیں کہ ہم اس بربادی کے بعد کبھی یروشلم میں دوبارہ آباد ہوں گے مگر ہم تیرے ذریعہ سے ان کو خبردار کرتے ہیں کہ خدا کا فیصلہ ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ [22]

حضرت عزیر (علیہ السلام) اور عقیدت ابنیت ترمیم

گذشتہ سطور میں آچکا ہے کہ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر ڈالا اور بنی اسرائیل کے مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کو بھیڑوں کی طرح ہنکا کرلے چلا تو توراۃ کے تمام نسخوں کو بھی جلا کر خاک کر دیا تھا اور بنی اسرائیل کے پاس نہ توراۃ کا کوئی نسخہ باقی بچا تھا اور نہ کوئی حافظ تھا جس کو اول سے آخر تک توراۃ محفوظ ہو۔ اسیری کے پورے دور میں وہ توراۃ سے قطعاً محروم ہو چکے تھے لیکن جب عرصہ دراز کے بعد ان کو بابل کی اسیری سے نجات ملی اور وہ بیت المقدس (یروشلم) میں دوبارہ آباد ہوئے تو اب ان کو یہ فکر ہوئی کہ خدا کی کتاب توراۃ کو کسی طرح حاصل کریں تب حضرت عزیر (علیہ السلام) (عزراہ) نبی نے سب اسرائیلیوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے توراۃ کو اول سے آخر تک پڑھا اور تحریر کرایا۔ بعض اسرائیلی روایات میں ہے جس وقت انھوں نے بنی اسرائیل کو جمع کیا تو سب کی موجودگی میں آسمان سے چمکتے ہوئے دو (شہاب) اترے اور عزیر (علیہ السلام) کے سینے میں سما گئے تب حضرت عزیر (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو از سر نو توراۃ مرتب کر کے عطا فرمائی۔ چنانچہ جب حضرت عزیر (علیہ السلام) اس اہم کام سے فارغ ہوئے تو بنی اسرائیل نے نہایت مسرت کا اظہار کیا اور ان کے قلو ب میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کی قدرو منزلت سو گنا بڑھ گئی اور آہستہ آہستہ اس محبت نے گمرا ہی کی شکل اختیار کرلی کہ انھوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اسی طرح خدا کا بیٹا مان لیا جس طرح نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ تسلیم کرتے ہیں۔ اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے اس عقیدے کے لیے یہ دلیل قائم کرلی کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں توراۃ لا کردی تھی تو الواح پر لکھی تھی مگر عزیر (علیہ السلام) نے تو کسی لوح یا قرطاس پر مکتوب لا کردینے کی بجائے حرف بحرف اپنے سینے کی لوح سے اس کو ہمارے سامنے نقل کر دیا اور عزیر (علیہ السلام) میں یہ قدرت جب ہی ہوئی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ ٢ ؎ (العیاذ باللّٰہ) { سُبْحٰنَکَ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ} [23][24][25]

ایک شبہ کا جواب ترمیم

قرآن عزیز کے اس اعلان پر کہ عزیر (علیہ السلام) کو یہود خدا کا بیٹا کہتے ہیں آج کے بعض یہودی عالم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے اس لیے قرآن کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ مزید یہ کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے یہ بات نہ ہی یہودیوں کی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے تھے۔ نہ ہی آج کل کے یہودی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہودیوں کا کبھی یہ عقیدہ ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آج بھی نواح فلسطین میں یہود کا وہ فرقہ موجود ہے جو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتا ہے اور رومن کیتھولک عیسائیوں کی طرح ان کا مجسمہ بنا کر ان کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو خدا کے ساتھ ہونا چاہیے۔

ان اشکالات کے جوابات میں چند نکات پیش خدمت ہیں:

اس اشکال کے جواب میں چند نکات پیش ہیں۔

⁦1️⃣⁩۔بعض ملحدین نے اس آیت پر یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ قرآن مجید کے اس دعوٰی یہودی عزیرعلیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے ‘ کی تصدیق بائبل نہیں کرتی۔ یہ اعتراض حقیقت میں قرآن پر بنتا نہیں بلکہ بائبل پر بنتا ہے کہ اُس نے ہر ہر واقعہ کے متعلق معلومات فراہم نہیں کی یا پھر اس عقیدے کو قصداً تحریف کی بھینٹ چڑھا دیا گیا یا پھر بغض اسلام میں یہودیوں نے تاریخ پر خط نسخ پھیر دیا ۔ اگر یہودیوں میں ایسا کوئی فرقہ موجود نہ رہا ہوتا تو یثرب اور خیبر وغیرہ کے یہودی ضرور اس آیت پر اعتراض کرتے اور لازما کہتے کہ یہ بات ان سے غلط طور پر منسوب کی جا رہی ہے۔ ان کا اعتراض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں ایسا فرقہ موجود تھا۔ جو دن رات اسی ٹو میں رہتے تھے کہ ہمیں اعتراض کی کوئی بات ملے، حضور اور صحابہ کا مذاق اڑانا، مناظرے اور کئی جگہ سوالات تک قرآن نے ذکر کیے ہیں یہ ممکن نہیں کہ قرآن پر اعتراض کا اتنا اہم پوائنٹ وہ مس کرجاتے جسے آج کے متعصبین لے کے بیٹھے ہوئے ہیں ، نبی کریم ﷺ کے معاصرین یہود یوں کا اس پر سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل مبین ہے کہ ابتدائے اسلام میں یہودیوں میں نہ صرف ایسے لوگ موجود تھے بلکہ اہل مدینہ ان لوگوں سے واقفیت بھی رکھتے تھے۔

⁦2️⃣⁩یہ بات قانون فطرت ہے کہ کسی بھی قوم یا جماعت میں فرقے عدم سے وجود میں آتے ہیں اور پھر دوبارہ معدوم ہوجاتے ہیں لہذا کسی فرقے کے وجود کا زمانہ حال میں موجود نہ ہونا اُس کے لائمی عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔یہودیوں میں ایک غاریہ فرقہ ہوا کرتا تھا جو غاروں میں سکونت پزیر رہتے تھے مگر آج یہ موجو د نہیں۔اِسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک فرقہ اسینی کے نام سے موجود تھا لیکن انجیل میں کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں اور 1947 میں اس فرقہ کی عظیم باقیات یروشلم کے قریب قمران نامی علاقے سے ملی ہیں۔اناجیل میں موجودیہودی فرقے صدوقی،فریسی وغیرہ کوئی بھی آج موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ کہاں سے برآمد ہو گیا کہ یہ فرقے موجود ہی نہیں تھے۔ اگر قرآن مجید کے دعویٰ کے مطابق عزیز علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننے والا یہودی فرقہ موجود نہیں تویہ قرآن مجید کی عدم صداقت کی دلیل ہے تو پھر یہ اعتراض بدرجہ اولیٰ بائبل پر وارد ہوجاتا ہے جو سودمی،ادومی،صدوقی وفریسی نامی فرقوں کے وجود کی خبر دیتی ہیں مگر آج ان فرقوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ حقیقت میں یہ اعتراض کسی پر بھی نہیں بنتا بلکہ تذکرہ کرنے والے کی حقانیت کی دلیل ہے کہ وہ ایسی باتیں بھی بتا رہا ہے جو صدیوں پرانی ہیں اور اس کے گواہ اس کے اپنے نہیں غیر مذہب کے لوگ ہیں ۔۔۔!!!

⁦3️⃣⁩یہود میں یہ عقیدہ کیسے اور کب وجود میں آیا ؟ ؟ یہودی قوم اپنی شرارت کی وجہ سے ہمیشہ ذلت اور پریشانیوں کا شکار رہی. ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس دور میں تورات کو بھی جلا دیا گیا تھا تب حضرت عزیر نے اللہ کے حکم سے دوبارہ تورات لکھی جب یہ لوگ جنگ سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اپنے چھپائے ہوئے نسخوں سے اس کو ملایا جو حضرت عزیر نے لکھا تھاتب اس کو ہو بہو پا کر ان کی عزت کرنے لگئ اور ان کو شریعت موسوی کا نائب اور ایک بہت بڑے عالم کا درجہ دنے لگے اور بعض نے ان کو خدا کا بیٹا تک بنا ڈالا۔بعد میں یہ شرک ان میں پھیلتا گیا ، یہاں تک کہ بعد کے نبیوں نے آکر اصلاح کی اور یہ لوگ محدود ہوتے گئے۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک جگہ پڑھا تھا حضرت عباسؓ غالباََ فرماتے ہیں کہ ایک دن یہود کے کچھ سردار اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لاہیں جب کہ آپ عزیر کو اللہ کا بیٹا بھی نہیں مانتے تب یہ آیات نازل ہوہیں.۔۔۔ جس طرح عیسائیت میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کی تقسیم ہوئی، کیتھولک اکثریت میں رہے، اس طرح یہود میں ایک زمانہ ایسے یہود کی اکثریت کا بھی رہا ہے، قرآن نے اسی اکثریت کے عقیدے کی خبر تھی جو عیسائیوں میں کیتھولک کو بھی حاصل تھی۔

حضرت عزیر (علیہ السلام) کی زندگی مبارک ترمیم

حضرت عزیر (علیہ السلام) کی حیات طیبہ سے متعلق تفصیلی حالات کا کچھ زیادہ مواد کتب سیرو تاریخ میں نہیں پایا جاتا اور مجموعہ توراۃ کے صحیفہ عزرا میں بھی خود ان کی زندگی پاک پر مفصل روشنی نہیں پڑتی اور اس کا زیادہ حصہ بنی اسرائیل کی اسارت بابل اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ البتہ توراۃ اور وہب بن منبہ اور کعب احبار سے منقول روایات سے صرف اس قدر پتہ چلتا ہے کہ وہ بخت نصر کے حملہ بیت المقدس کے زمانہ میں صغر سن تھے اور چالیس ١ ؎ برس کی عمر میں بنی اسرائیل کے منصب ” فقیہ “ پر فائز ہوئے اور اس کے بعد ان کو منصب نبوت عطا ہوا اور وہ اور نحمیاہ نبی (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کا فرض انجام دیتے اور ارد شیر کے زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کی تعمیر بیت المقدس سے متعلق مشکلات کو دور کرنے کے سلسلہ میں شاہی دربار میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے رہے۔ [26] اور مشہور قول کے مطابق جن بزرگوں نے سورة بقرہ کے واقعہ کا تعلق ان کے ساتھ بتایا ہے انھوں نے اس سلسلہ میں بعض مزید تفصیلات حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب احبار وغیرہ سے نقل فرمائی ہیں جن کا ذکر ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں کیا ہے اور بعض مفسرین نے بھی آیات زیر بحث کی تفسیر کے ضمن میں ان کو نقل کیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات کے ضمن میں ایک صحیح روایت نقل کی گئی تھی کہ کسی ” نبی “ کے ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ انھوں نے غصہ میں چیونٹی کے سوراخ میں آگ ڈال کر تمام چیونٹیوں کو جلوادیا ‘ تب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ان پر عتاب فرمایا کہ تم نے ایک چیونٹی کی خطا پر تمام چیونٹیوں کو جلا دینا کس طرح جائز رکھا ؟ تو اس واقعہ کے متعلق ابن کثیر ؒ نے اسحاق بن بشر کی سند سے یہ نقل کیا ہے کہ ‘ ابن عباس ‘ مجاہد اور حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ نبی ” عزیر “ (علیہ السلام) تھے۔ [27] عزیر (علیہ السلام) کے متعلق بعض اور بھی واقعات نقل کیے جاتے ہیں مگر روایت اور درایت دونوں اعتبار سے ساقط الاعتبار ہیں بلکہ لغو اور لا طائل ہیں چنانچہ ابن کثیر وغیرہ نے بھی ان کو نقل کر کے رد کر دیا ہے۔ [28]

حضرت عزیر (علیہ السلام) اور منصب نبوت ترمیم

مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کو آیات مسطورہ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر (علیہ السلام) نبی نہیں تھے بلکہ مرد صالح تھے حالانکہ جمہور کا قول یہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نبی تھے اور قرآن عزیز نے بھی جس انداز اور اسلوب سے ان کا ذکر کیا ہے وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور گمراہ یہودیوں نے ان کو اسی طرح ابن اللہ بنالیا جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ نیز توراۃ بھی ان کے نبی ہونے کا اقرار کرتی ہے۔ علاوہ ازیں جو حضرات ایک طرف سورة بقرہ کی زیر بحث آیات کا مصداق عزیر (علیہ السلام) کو بتاتے ہیں اور دوسری جانب ان کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے یہ بات قابل توجہ ہے کہ بقرہ کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بلا واسطہ خطاب فرمایا ہے اور ان سے ہم کلام ہوا ہے اور یہ ان کے نبی ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ بہرحال عزیر (علیہ السلام) کے نبی ہونے کے متعلق دو قول ہیں اور راجح قول یہی ہے کہ وہ بلاشبہ خدا کے پیغمبر ہیں۔

1924ء میں جنوبی عراق کے شہر العمارہ میں واقع عزیر کا مقبرہ
1916 میں عزیر مزار
العمارہ شہر میں جنوبی عراق میں واقع عزیر کا مقبرہ

وفات اور قبر مبارک ترمیم

ابن کثیر نے وہب بن منبہکعب احبار اور عبداللہ بن سلام ؓ سے عزیر (علیہ السلام) کے متعلق جو طویل روایت نقل کی ہے اس میں ہے کہ عزیر (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے لیے توراۃ کی تجدید عراق کے اندر دیر حزقیل میں کی تھی اور اسی نواح کے ایک قریہ سائر آباد میں ان کی وفات ہوئی۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ بعض آثار میں موجود ہے کہ ان کی قبر دمشق میں ہے۔ [29]

بصائر ترمیم

حضرت عزیر (علیہ السلام) کے واقعات کو جو حضرات قصہ کہانی کی بجائے تاریخی حقائق سمجھتے ہیں وہ بلاشبہ اس سے بہت اہم نتائج اخذ کرسکتے ہیں اور کیا عجب ہے کہ وہ حسب ذیل بصائر و عبر کو بھی اسی سلسلہ کی کڑی سمجھیں :
انسان کتنا ہی معراج ، ترقی اور بام رفعت پر پہنچ جائے اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس کو زیادہ سے زیادہ بھی قرب حاصل ہوجائے تب بھی وہ خدا کا بندہ ہی رہتا ہے اور کسی بھی مقام بلند پر پہنچ کر وہ خدا یا خدا کا بیٹا نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس وحدہ لاشریک لہ باپ اور بیٹے کی نسبتوں سے پاک اور وراء الوراء ہے لہٰذا یہ انسان کی سب سے بڑی گمراہی ہے کہ وہ جب کسی برگزیدہ انسان سے ایسے امور صادر ہوتے دیکھتا ہے جو عام طور پر عقل کے نزدیک حیرت زا اور تعجب خیز ہوں تو وہ رعب یا انتہائے عقیدت کی وجہ سے پکاراٹھتا ہے کہ یہ ہستی تو خدا کا اوتار (خدا بشکل انسان) یا اس کا بیٹا ہے اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ بلاشبہ ان واقعات کا صدور خدا کی طاقت کے ذریعہ بطور ”نشان “ اس کے ہاتھوں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود نہ خدا ہے اور نہ خدا کا بیٹا بلکہ اس کا ایک مقرب بندہ ہے اور یہ امور خدا کے خاص قوانین کے ماتحت محض اس کی تائید اور اس کی صداقت کے لیے ظاہر ہوتے ہیں ورنہ تو یہ بھی خدا کے سامنے اسی طرح مجبور ہے جس طرح دوسری مخلوق۔ چنانچہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ اس حقیقت کو واضح کر کے انسان کو اس گمراہ کن عقیدت سے سختی کے ساتھ باز رکھا ہے۔
1 اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کے اس واقعہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے متصل بیان فرمایا ہے جس میں مذکور ہے کہ انھوں نے بھی ایک مرتبہ خدائے تعالیٰ سے یہ دریافت کیا تھا کہ مجھ کو یہ بتا کہ تو کس طرح مردہ میں جان ڈال دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم ! کیا تم اس مسئلہ پر ایمان نہیں رکھتے ؟ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں عرض کیا : خدایا ! میں بیشک اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ تو مردہ کو زندہ کردیتا ہے مگر میرے سوال کا مقصد قلبی اطمینان حاصل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے واقعہ کو اس واقعہ کے ساتھ اس غرض سے بیان فرمایا ہے تاکہ یہ مسئلہ واضح اور روشن ہوجائے کہ انبیا (علیہم السلام) کی جانب سے ان سوالات کا پیش آنا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ احیائے موتیٰ کے بارے میں شک رکھتے اور اس کو دور کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے استفسارکا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کو اس کے بارے میں جو علم الیقین حاصل ہے وہ عین الیقین ١ ؎ اور حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائے یعنی وہ جس طرح دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ آنکھوں سے بھی مشاہدہ کر لیں کیونکہ وہ مخلوق خدا کی رشد و ہدایت پر مامور ہونے کی وجہ سے جن ذمہ داریوں کے حامل ہیں ان کی تبلیغ و دعوت کو با حسن وجوہ انجام دے سکیں اور یقین کا کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ایسا باقی نہ رہے جو ان کو حاصل نہ ہو۔
2 دنیا دارالعمل ہے اور دارالجزاء ‘ ایک دوسرا عالم ہے جس کو دار آخرت کہا جاتا ہے لیکن عادت اللہ یہ جاری ہے کہ ظلم اور کبر دو ایسے عمل ہیں کہ ظالم اور متکبر کو اس دنیا میں بھی ضرور ذلت و رسوائی کا پھل چکھاتے ہیں خصوصاً جبکہ یہ دونوں اعمال بد افراد کی جگہ قوموں کا مزاج بن جائیں اور ان کی طبیعت کا جزو ہوجائیں۔
{ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ } [30]
لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قوموں کی اجتماعی حیات کی بقا و فنا کی عمر انفرادی زندگی سے جدا ہوتی ہے اس لیے ان کے پاداش عمل کی تاخیر سے کبھی بھی باہمت اور صاحب استقلال انسان کو گھبرانا اور مایوس ہونا نہیں چاہیے اس لیے کہ خدا کا بنایا ہوا قانون ” پاداش عمل “ اپنے معین وقت سے ٹل نہیں سکتا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. صحیفہ عزرا عہد نامہ قدیم
  2. (سورہ توبہ : ٩/٣٠)
  3. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  4. (تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ٣١٤ و تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٤٣)
  5. (تفسیر و تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٤٤)
  6. (١ ؎ تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٤٢۔ ٤٦ )
  7. (یرمیاہ نبی کا صحیفہ عہد نامہ قدیم)
  8. (البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٣٨۔ ٣٩ جلد ٢‘ تاریخ ابن خلدون وانسائیکلو پیڈیا آف اسلام۔ )
  9. (صحیفہ یرمیاہ باب ٢٩ آیت ١٠ عہد نامہ قدیم)
  10. ٢ ؎ یسعیاہ ‘ باب ٤٥‘ آیت ١۔
  11. (تفسیر ابن کثیر جلد اول ص ٣١٤)
  12. (تفسیر ترجمان القرآن جلد ٢‘ ص ٤٢١)
  13. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  14. (البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  15. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  16. (البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  17. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  18. (سورہ البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  19. (البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  20. (البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  21. (البقرۃ : ٢/٢٥٩)
  22. (حزقیل باب ٣٧ آیات ١۔ ١٤ عہد نامہ قدیم)
  23. (النور : ٢٤/١٦)
  24. ١ ؎ البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٤٥۔ ٤٦
  25. ٢ ؎ البدایہ والنہایہ ص ٤٦۔
  26. (صحیفہ عزرا عہد نامہ قدیم)
  27. (البدایہ والنہایہ و تاریخ طبری)
  28. (البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٤٧)
  29. (البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٤٣)
  30. (سورة نمل)