حضرت عمر بن سعد بن عبید رحمۃ اللہ علیہ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔آپ نے 203ھ میں وفات پائی۔

حضرت عمر بن سعدؒ
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

نام عمر اور ابوداؤد کنیت تھی۔معلوم نسب نامہ یہ ہے ،عمر بن سعد ابن عبید، اصل نام کی بجائے کنیت ہی سے مشہور ہوئے، حفری اور کوفی دونوں وطنی نسبتیں ہیں،حفر کوفہ کا ایک محلہ ہے۔ وہیں ان کی فرودگاہ تھی۔ [1]

علم و فضل ترمیم

علمی حیثیت سے باکمال ہونے کے ساتھ عبادت، انابت الی اللہ اور فقر واستغناء بھی نہایت بلند مقام رکھتے تھے،اپنے عہد کے اکابر تابعین کی صحبت سے مشرف اور ان کے خزانہ علم سے مستفید ہوئے تھے۔ عجلی کے بیان کے مطابق تین ہزار ایسی حدیثیں ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھیں جن کی حجیت اور استناد پر ماہرین فن کا اتفاق ہے،[2]دنیائے دل کی آبادی کا عالم یہ تھا جس مقام پر وہ ہوتے وہاں کے لوگ اس جگہ کو ہر آفت اور بلا سے مامون تصور کرتے،حافظ وکیع جیسے جلیل القدر امام فرماتے ہیں: ان کان یدفع البلاء باحد فی زماننا فبابی داؤد الحضرمی [3] اگر ہمارے زمانہ میں کسی کے ذریعہ بلائیں دور کی جاتی ہیں تو وہ ابوداؤد الحضرمی ہیں۔ امام ابو نعیم جب ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تو غایت تعظیم واحترام سے خاموش بیٹھے رہتے اور فرماتے: لم یکن بالکوفۃ بعد حسین الجعفی افضل منہ [4] امام حسین الجعفی کے بعد کوفہ میں ان سے بڑا فاضل کوئی نہ تھا۔

شیوخ ترمیم

جن محدثین و علما سے انھوں نے کسبِ ضیا کیا ان میں درجِ ذیل کبار تابعین اور ممتاز اتباع تابعین کے نام ملتے ہیں۔ مسعر بن کدام، مالک بن مغول، سفیان ثوری، صالح بن حسان، حفص بن غیاث، یحییٰ بن ابی زائدہ، شریک نخعی، ہشام بن سعد۔

تلامذہ ترمیم

اسی طرح خود ان کے خرمنِ علم کے خوشہ چینوں میں امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ،علی بن المدینی، قاسم بن زکریا، محمود بن غیلان، موسیٰ بن عبد الرحمن المسروقی، علی بن حرب اور عبد بن حمید کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ [5] کان ابوداؤد ثقۃ زاھداً من اھل الکوفۃ امام ابوداؤد الحضرمی کوفہ کے ثقہ اور زاہد شخص تھے۔ محمد بن مسعود کا بیان ہے: ھواحب الیٰ من حسین الجعفی وکلا ھما ثقۃ [6] وہ میرے نزدیک امام حسین الجعفی سے بھی زیادہ پسندیدہ شخص تھے اور ثقہ تو دونوں ہی ہیں ۔ علاوہ ازیں ابو حاتم آجری عجلی اور ابن معین بھی ان کی عدالت وصداقت کے معترف ہیں۔

عبادت ترمیم

علی بن المدینی بیان کرتے ہیں کہ کثرتِ عبادت وریاضت میں کم از کم کوفہ میں ان کی مثال نہیں مل سکتی،"مارایت بالکوفۃ اعبدمنہ" [7] ابن حبان کتاب الثقات میں لکھتے ہیں: کان من عباد الخشف [8] وہ بے انتہا عبادت گزار تھے۔

فقر ودرویشی ترمیم

بایں ہمہ تبحر علم و فن ان کی زندگی قرونِ اولیٰ کی سادگی ،تواضع اور درویشی وقلندری کا مثالی نمونہ تھی، علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: کان زاھداً ناسکا لہ فضل وتواضع [9] وہ زاہد، پرہیز گار، متواضع اور صاحبِ فضل تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں: رأیت اباداؤد الحضرمی وعلیہ جبۃ مخرقۃ وقدخرج القطن منھا یصلی بین المغرب والعشاءِ وھو یرحج من الجوع [10] میں نے ابو داؤد الحفری کو اس عالم میں دیکھا کہ وہ پھٹا پرانا جبہ پہنے ہوئے تھے جس کی روئی باہر نکل پڑ رہی تھی،وہ مغرب وعشا کے درمیانی وقفہ میں نماز پڑھ رہے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے۔ حسین بن علی الصدائی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں ابوداؤد الحفری کی فرود گاہ پر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، انھوں نے اندر ہی سے دریافت کیا کون ہے؟ میں نے عرض کیا، ایک حدیث کا طالب علم حاضر ہے،فرمایا: اچھا ذرا ٹہرو ،راوی کا بیان ہے کہ اسی اثنا میں میں نے دروازے کے ایک سوراخ سے اندر جھانکا،کیا دیکھتا ہوں کہ شیخ ایک تہبند باندھے اُون کات رہے ہیں، جس کو بیچ کر وہ روزی فراہم کرتے تھے ؛چنانچہ میری آواز پر اون سمیٹ کر اکٹھا کیا اور اس پر ایک کپڑا ڈال دیا،پھر مجھے اندر بلایا اورحدیثیں املا کرانا شروع کیں،یہاں تک کہ کاغذ ختم ہو گیا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے علاوہ خالصۃً لوجہ اللہ روایت کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ ابن عبد ربہ فرماتے ہیں کہ میں نے عباس الدوری کو اکثر یہ کہتے سُنا کہ: حدثنا ابوداؤد الحفری ولورایت اباداؤد الحفری لرأیت رجلا کانہ اطلع علی النار فرای مافیھا [11] ہم سے ابوداؤد حفری نے حدیثیں روایت کی ہیں اور تم اگر ان کو دیکھتے تو ایک ایسا شخص پاتے جس نے گویا آگ کے اندر جھانک کر اس حقیقت کو دیکھ لیا ہو۔ یعنی خوفِ آخرت اور خشیتِ الہیٰ سے ہمہ وقت لرزاں رہتے تھے،اسی فقر و استغنا اور دنیا سے کنارہ کشی کا نتیجہ تھا کہ وفات کے وقت ان کے گھر میں کوئی بھی سامان نہ تھا۔ چنانچہ ابو حمدون جو شیخ کے جنازہ میں شریک تھے کہتے ہیں کہ: لما وفناہ ترکنا بابہ مفتوحاً ماخلف شیئا [12] جب ہم نے ان کو دفن کر دیا تو ان کے گھر کے دروازہ کوکھلا چھوڑ دیا ؛کیونکہ انھوں نے اپنے پیچھے کچھ چھوڑا ہی نہ تھا۔

وفات ترمیم

جمادی الاخریٰ 203ھ میں بایامِ خلافت مامون کوفہ رحلت فرمائی [13]بعض علما نے ان کا سالِ وفات 206ھ بتایا ہے جو صحیح نہیں ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (کتاب الانساب ورق:171)
  2. (تہذیب التہذیب:7/453)
  3. (العبر فی خبر من غبر:1/340)
  4. (تہذیب التہذیب:7/453)
  5. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:283،وتہذیب التہذیب:7/452)
  6. (تہذیب التہذیب:7/453)
  7. (سذرات الذہب:2/6)
  8. (تہذیب التہذیب:7/453)
  9. (طبقات ابن سعد:6/281)
  10. (صفوۃ الصفوہ:3/108)
  11. (صفوۃ الصفوۃ:3/109)
  12. (العبر فی خبر من غبر:1/340)
  13. (طبقات ابن سعد:6/281)